بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں نسلی تشدد کے نتیجے میں کم از کم 54 افراد ہلاک اور 23 ہزار کے قریب افراد بے گھر ہو گئے ہیں جن میں سے بیشتر فوجی کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ پُرتشدد لہر کی وجہ بے جی پی کی جانب سے ایک اہم نسلی گروہ پر ممکنہ نوازشات ہیں۔
ریاست میں تشدد کی لہرکاآغاز بدھ 3 مئی کو اس وقت ہوا جب مقامی کمیونٹی نے ریاست کےایک اہم نسلی گروہ کو قبائلی سٹیٹس دیے جانے کے منصوبے کیخلاف احتجاجی مظاہرے کیے۔
گزشتہ روزبھارتی فوج کا کہنا تھا ڈرون اور فوجی ہیلی کاپٹروں کی مدد سے امپھال وادی سمیت متاثرہ علاقوں کی فضائی نگرانی میں اضافہ کردیا گیا ہے۔
جاری تشدد پر قابو پانے کیلئے حکام نے جمعرات 4 مئی کو ’دیکھتے ہی گولی مارنے‘ کے احکامات جاری کیے اور فوجی کمک طلب کی جس نے نسلی تشدد کی نئی تاریخ کے ساتھ ریاست میں ایک نئی فالٹ لائن کھول دی۔ بدھ کو ریاست میں انٹرنیٹ کنکشن منقطع کرتے ہوئے 16 میں سے 9 اضلاع میں کرفیو نافذ کردیا گیا تھا۔
تاہم اس احتجاج نے پرتشدد رخ اختیار کیا جس کے دوران ہجوم نے مکانات، گاڑیوں، چرچوں اور مندروں پر حملہ کر دیا۔
اتوار 7 مئی کو بھارتی فوج کا کہناتھاکہ راتوں رات کوئی نیا ”بڑا تشدد“ نہیں ہوا ہے اور چوراچند پور ضلع میں صبح 7 بجے سے 10 بجےکے درمیان کرفیو اٹھا لیا گیا ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق حکام نے سرکاری طور پر ہلاکتوں کی تعداد نہیں بتائی ہے لیکن ریاستی دارالحکومت امپھال اور چورا چند پور کے اسپتالوں کے مردہ خانوں سے مجموعی طور پر 54 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ملی ہے۔
میتی برادری: ریاست کے دارالحکومت امپھال میں مقیم اکثریتی ہندو برادری، 2011 میں بھارت میں ہونے والی اب تک کی آخری مردم شماری کے مطابق، ریاست کی 35 لاکھ کی آبادی کا 50 فیصد سے زیادہ ہے۔
میتی زیادہ تر میدانی علاقوں میں مقیم ہیں تاہم ان کی موجودگی پہاڑیوں میں بھی ہے۔
ناگا اور کوکی قبائل: عیسائی قبائل ریاست کی آبادی کا تقریبا 40۰ فیصد ہیں، اور انہیں ’شیڈولڈ ٹرائب‘ کا درجہ حاصل ہے، جو انہیں پہاڑیوں اورجنگلوں میں زمین کے مالک کا حق دیتا ہے۔ یہ پہاڑیوں میں مقیم سب سے اہم قبائل ہیں۔
میزو سمیت دیگر قبائلی گروہ بھی میانمار کی سرحد سے متصل ریاست کے متنوع نسلی ڈھانچے کی تشکیل کرتے ہیں۔
آئینی طور پر تسلیم شدہ، یہ سرکاری عہدہ قبائل اور برادریوں کو کسی حد تک تحفظ فراہم کرتا ہے۔
اس علاقے میں کوریج کرنے والے ایک صحافی ارونابھ سیکیا کا کہنا ہےکہ ، ’یہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مثبت اقدام ہے کہ پسماندہ طبقات کی نمائندگی ہو اور انہیں تعلیمی اداروں اور سرکاری نوکریوں میں ریزرویشن اور کوٹہ دیا جائے۔ میتیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ مرکزی دھارے کی دیگر برادریوں کے مقابلے میں پسماندہ ہیں۔‘
تشدد سے بھرپور جھڑپوں کا آغاز ریاست کے کوکی اکثریتی چوراچند پورضلع میں ہواجہاں کوکی قبیلے کے لوگ میتی برادری کے ”شیدولڈ ٹرائب“ کے طور پر نامزد کیے جانے کے مطالبے کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔
صحافی نے الجزیرہ کو بتایا، “قبائل کا خیال ہے کہ میتیوں کو “شیڈولڈ ٹرائب “ کا درجہ دینا ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہوگی کیونکہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ آبادی کا پسماندہ حصہ ہیں، نہ کہ میتی۔’
قبائل کا ماننا ہے کہ میتی پہلے سے ہی غالب برادری ہیں اس لئے ان کیلئے مثبت کارروائی نہیں کی جانی چاہئے۔ انہیں لگتا ہے کہ میتی ان کا حق کھا رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے شمال مشرقی حصوں میں قبائلی علاقوں کو کچھ آئینی تحفظ حاصل ہے، اوران میں ”اضطراب“ پایا جاتا ہے کہ شیڈولڈ ٹرائب کی حیثیت کا مطلب یہ ہو گا کہ میتی پہاڑیوں میں زمین کے مالک ہوسکتے ہیں۔
دونوں فریقوں کے درمیان پرتشدد جھڑپوں اور نسلی تناؤ کی ایک طویل تاریخ ہے۔
صحافی نے بتایا کہ طویل عرصے سے جاری کشیدگی کی جڑیں گہری ہیں اور 2015 میں بھی مختلف وجوہات کی بنا پر کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔؎
منی پور کو بھارتی ریاست میں شامل کیے جانے کے بعد سے وہاں تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ ایک پیچیدہ خطہ ہے جو کئی عوامل کی بناء پر تشکیل پایا ہے۔
ریاستی حکومت وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) چلاتی ہے۔
صحافی نے وضاحت کی کہ ”پرتشدد جھڑپیں شروع ہونے کے بعد سے مرکزی حکومت نے آئین کے ایک آرٹیکل کو استعمال کیا جو اسے ریاست میں خصوصی اختیارات حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے“۔
انہوں نے عینی شاہدین کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ریاستی پولیس ہجوم کو روکنے اور میتی قبائل کے زیر اثر امپھال اور ریاست کے دیگر حصوں میں جھڑپوں پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔
کوکی برادری کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کیخلاف پرتشدد ہجوم کی طرف سے ٹارگٹ حملے کیے گئے، صحافی کے مطابق علاقے سے متعلق معلومت اتنی زیادہ نہیں ہیں کیونکہتشدد کی وجہ سے صحافی چوراچند پورمیں داخل نہیں ہو پا رہے ہیں اور وہاں کا انٹرنیٹ بھی معطل ہے۔
مقامی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ مسلح کوکی جنگجوؤں نے حملے کرتے ہوئے سڑکوں پر قبضہ کر لیا اور سیکیورٹی فورسز کے ساتھ بھی جھڑپیں ہوئیں۔
معاملات خراب ہونے کے بعد سے دونوں اطراف سے تقریبا 23 ہزارافراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
صحافی ارونابھ سیکیانے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’میتی پہاڑیوں میں اقلیت میں ہیں، اس لیے وہ وہاں سے بے گھر ہوئے ہیں، جب کہ آدیواسی میدانی علاقوں اور شہروں میں اقلیت میں ہیں، جہاں سے وہ بے گھر ہوئے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت نے قیام امن میں مدد کے لئے دو سیکورٹی مشیروں کو ریاست میں بھیجاہے ، لیکن صورتحال اب بھی کشیدہ ہے۔