کہا جاتا ہے کہ انسان کو موت کے وقت ایک تیز روشنی اور اپنے مردہ رشتہ داروں کو دیکھنے کا تجربہ ہوتا ہے، لیکن اس میں کس حد تک سچائی ہے؟ اس بات کا جواب ایک تازہ تحقیق نے دیا ہے۔
مذکورہ تحقیق کے مطابق، جب دل کا دورہ پڑتا ہے تو دماغی سرگرمیوں میں اچانک اضافہ ہو سکتا ہے، جس کی وجہ سے لوگ موت سے قریب تر تجربات کا سامنا کرتے ہیں، ایسے میں انہیں چمکدار سفید روشنی دکھائی دیتی ہے۔
نیشنل اکیڈمی آف سائنس کے جرنل کے ہم مرتبہ نظرثانی شدہ پروسیڈنگز میں شائع مطالعے میں چار مرنے والے مریضوں کی دماغی سرگرمی کا جائزہ لیا۔
موت کو ”ٹک سے چھو کر“ واپس آنے والے لوگوں نے اپنے تجربے کو ایک روشنی دکھائی دینے کے طور پر بیان کیا ہے، جبکہ کچھ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے اس دوران اپنے مرچکے پیاروں کو دیکھا۔
بہت سے لوگ ان کے اس تجربے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، لیکن نئی تحقیق میں اس رجحان کی ممکنہ سائنسی وضاحت پیش کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا واقعی موت سے پہلے پوری زندگی آنکھوں کے سامنے گھومتی ہے؟
الیکٹرو اینسیفلوگرام (ای ای جی) کا استعمال کرتے ہوئے، محققین نے مشاہدہ کیا کہ دل کا دورہ پڑنے یا شدید دم گھٹنے کی وجہ سے انسانوں اور جانور، دونوں کے دماغ میں گاما ویوز کی سرگرمیاں زیادہ ہو جاتی ہیں۔
دماغ میں گاما پاور کا وجود شعور کا ایک اشارہ ہے اور اس کا تعلق شدید توجہ، مسائل حل کرنے اور دماغ کی ان دیگر سرگرمیوں سے ہوتا ہے جس کے لیے دماغی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔
سائنسدانوں نے مرنے والے مریضوں میں خاص طور پر دماغ کے ان فعال حصوں کا مشاہدہ کیا جو دماغ کے ان علاقوں سے ملتے جلتے ہیں جو خواب دیکھنے جیسی اندرونی بصری سرگرمی کو سنبھالتے ہیں۔
جس سے تیز روشنی یا مرچکے رشتہ داروں کے چہرے دکھائی دینے کی وضاحت کی جاسکتی ہے۔
یعنی مریض ان تصاویر کو حقیقت میں اپنے سامنے نہیں دیکھ رہے ہوتے، بلکہ وہ بنیادی طور پر ان کے خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: انسان کی روح کا وزن کتنا ہے؟
مطالعہ میں جن چار مریضوں کا مشاہدہ کیا گیا ، ان میں سے دو میں دماغی سرگرمی میں اضافہ ہوا جبکہ دیگر دو میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔
یہ اس بات کی وضاحت ہوسکتی ہے کہ موت کے قریب جانے والے صرف 10 سے 20 فیصد لوگ ہی کیوں بصری تجربات کی اطلاع دیتے ہیں۔
تاہم، مطالعہ میں اس بات کی جانچ نہیں کی گئی کہ کچھ لوگوں میں دوسروں کے مقابلے اس رجحان کی وجہ کیا ہے۔
اس تحقیق کی قیادت کرنے والے ڈاکٹر جیمو بورجیگین نے ”نیو سائنٹسٹ“ کو بتایا کہ اگر دماغی سرگرمی میں اضافہ کرنے والے دو مریض زندہ رہتے تو شاید ان کے پاس سنانے کیلئے کوئی کہانی ہوتی۔
محققین نے اس بات پر زور دیا کہ ان کے نتائج حتمی نہیں ہیں، کیونکہ وہ سبجیکٹس سے یہ نہیں پوچھ سکتے تھے کہ جب دماغ کی بڑھتی ہوئی سرگرمی کو نوٹ کیا گیا تھا تو انہوں نے کیا دیکھا تھا۔