افغان وفد اور پاکستانی حکام کی ملاقات اور مذکرات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی، پاکستانی حکام کی جانب سےافغان وفد کو دہشت گردی کے تمام تر ثبوت فراہم کر دئیے گئے ہیں، جبکہ افغان حکومت نے افغانستان میں موجود دہشتگردوں کے ٹھکانے ختم کرنے کیلئے ایک ماہ کی مہلت مانگ لی ہے۔
پاکستان میں ہونے والے تمام دہشتگردی کے واقعات سرحد پار حملوں سمیت دیگر ثبوت بھی افغان حکام کو دئیے گئے، اور اب تک ہلاک دہشتگردوں کی لسٹیں بھی دی گئیں۔
ذرائع کے مطابق پاکستان کا افغان وفد کے ساتھ دیگر فیصلہ کن اقدامات کرنے پر بھی اتفاق ہوا ہے، اور افغان وفد نے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے سخت اقدامات کی یقین دہانی کرائی ہے۔
افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کی قیادت میں وفد دو طرفہ اور سہ فریقی اجلاسوں میں شرکت کے لیے چار روزہ دورے پر پاکستان میں ہے۔
امیر خان متقی کا دورہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سیاسی ملاقاتوں کے عمل کا تسلسل ہے، جس میں وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر کا 29 نومبر 2022 کو کابل کا دورہ اور وزیر دفاع خواجہ آصف کی قیادت میں 22 فروری 2023 کو ایک اعلیٰ سطحی وفد کا دورہ کابل شامل تھا۔
وفد نے دہشتگردوں کے ٹھکانے ختم کرنے کیلئے ایک ماہ کی مہلت مانگ لی۔
خیال رہے کہ پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انہوں نے طالبان رہنماؤں کو باور کرایا تھا کہ افغان سرزمین کو دہشت گردوں کی جانب سے پاکستان پر حملوں اور اس کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال ہونے سے نہ روکا گیا تو پھر پاکستان کارروائی کرے گا۔
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مشترکہ چیلنجوں سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لئے دونوں برادر ہمسایوں کے درمیان تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف سید عاصم منیر کی قائمقام افغان وزیرخارجہ امیر خان متقی سے اپنے آفس میں ملاقات ہوئی جس میں بارڈر منیجمنٹ اور موجودہ سیکیورٹی ماحول میں بہتری کے کئے دوطرفہ سیکیورٹی میکانزم کی تیاری پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
جنرل عاصم منیر کی جانب سے افغان عبوری حکومت کی مکمل حمایت کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان تعاون بڑھانے پر زوردیا۔
افغان وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں امن کے حوالے سے پاکستان کے مسلسل کردارکوسراہتے ہیں، علاقائی استحکام اور خوشحالی کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔