سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ کا کہنا ہے کہ مذاکرات کی کہانی ختم ہو چکی اب سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوگا۔
ٹوئٹر پر جاری بیان میں پرویز الہیٰ نے کہا کہ چیف جسٹس کو گھر بھیجنے کی دھمکیاں دینے والے اس بار خود گھر جائیں گے۔ پوری قوم چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ساتھ کھڑی ہے، وہ قوم کے ہیرو بن چکے ہیں۔
سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے مزید لکھا کہ چیف جسٹس نے آئین پاکستان اور اپنے حلف کی پاسداری کا حق ادا کر دیا ہے۔ چیف جسٹس کے آئین کی بالادستی پر مبنی فیصلے کی گونج امریکی کانگریس میں بھی سنائی دے رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بریڈ شرمین سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عملدرآمد نہ ہونے پر حیرت اور تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔
خیال رہے کہ امریکی ایوان نمائندگان کے رکن بریڈ شرمین نے چند دن قبل کانگریس سے خطاب میں کہا تھا کہ عمران خان امریکا سے ڈیلنگ کے لیے سخت جبکہ شہباز شریف موافق رہے، مگر سوال جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا ہے، سپریم کورٹ نے حکم دیا پنجاب اور اس کے بعد دیگر صوبوں میں انتخابات ہونے چاہئیں۔ پنجاب اور اس کے بعد دیگر صوبوں میں انتخابات کا حکم قانون کی حکمرانی ہے۔ میرے خیال میں سپریم کورٹ کا حکم حتمی اور ناقابل اپیل ہے۔
سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ ایک مرتبہ پھر وزارتِ اعلیٰ سنبھالنے کے خواہش مند ہیں، جس کا اظہار انہوں نے یہ کہہ کر کیا ہے کہ عمران خان نے پنجاب میں جیت کی صورت میں انہیں یا مونس الہٰی کو وزیراعلیٰ بنانے کا وعدہ کیا ہے۔
عرب خبر رساں ادارے ”اردو نیوز“ کو دئے گئے ایک انٹرویو میں چوہدری پرویز الہیٰ نے کہا کہ ’میں نے ان کو لکھ کر دے دیا تھا، دستخط کر دئے تھے اور شناختی کارڈ لگا دیا تھا کہ اسمبلی توڑنے کی تاریخ خود لکھ لیں۔ ہم نے ان کی عزت کی اور انہوں نے بھی ہماری عزت کی اور کہا کہ آپ پارٹی کے مرکزی صدر بن جائیں اور پھر مونس الہیٰ یا آپ میں سے کوئی ایک وزیر اعلیٰ ہو گا الیکشن کے بعد پارٹی کی طرف سے۔‘
اپنے گھر پر ہونے والی پولیس اور محکمہ اینٹی کرپشن کی ریڈ سے متعلق چوہدری پرویز الہیٰ نے کہا کہ اس کارروائی کے پیچھے بھی بھی وہی لوگ ہیں جو عمران خان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’میں ان کا نام نہیں لینا چاہتا، سب کو پتا ہے وہ کون ہیں۔ وہ غیبی نہیں ہیں، کوئی غیبی نہیں ہوتا ان کے لیے میں ایک ہی دعا کروں گا کہ اللہ ان کے شر سے پاکستان کو محفوظ رکھے۔‘
پی ٹی آئی میں شمولیت پر دباؤ کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ان پر تحریک انصاف میں شمولیت نہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا، لیکن دباؤ کس نے ڈالا؟ انہوں نے اس حوالے سے کسی کا نام نہیں لیا۔
تاہم، انہوں نے کہا کہ ’ہمیں اس وقت کہا گیا (لیکن) ہم نے کہا جی ہم آپ کو بھی جانتے ہیں آپ جن کا لوگوں کو کہہ رہے ہیں کہ آپ وہاں جائیں یہاں نہ جائیں یہ ہمارا کام ہے آپ کا نہیں۔ یقین کریں مشرف صاحب کا دور بلکہ ضیاءالحق کے دور میں کسی کو اس طرح نہیں کیا گیا جو انہوں نے نئی ایک ریت ڈالی ہے۔‘
سابق وزیرِ اعلیٰ کا کہنا تھا کہ ’عمران خان تو بالکل نہیں چاہتے کہ (اداروں سے) لڑائی ہو۔‘
انہوں نے کہا کہ ’باجوہ صاحب کے ساتھ (ان کی لڑائی) تھی وہ ہٹ گئے ہیں اب نئے لوگ آ گئے ہیں۔‘
عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تصفیے کا کوئی چانس ہے؟
اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’صلح کس سے کرنی ہے؟ عمران خان کی لڑائی ایسے لوگوں کے ساتھ ہے جو ایک خاص ذہن رکھتے ہیں اور ان کی ایک خاص سوچ بن چکی ہے۔ جب تک وہ اپنی سوچ نہیں بدلیں گے راستے اور زیادہ مشکل ہوں گے۔ اس سیٹ اپ سے اس مائنڈ سیٹ سے ان کی لڑائی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اس سے بیٹھ گیا ہے معاشی طور پر اخلاقی طور پر ہرلحاظ سے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس (تصفیے) کے لیے چیف جسٹس کوشش کر رہے ہیں۔ اب ان کے خلاف دیکھ لیں شریفوں کا اندازہ لگائیں کہ جو ان کے ساتھ نہ دے اسے پکڑ لیتے ہیں یا گالیاں دیتے ہیں۔ اب عدلیہ کو تو پکڑ نہیں سکتے۔‘
سابق آرمی چیف جنرل (ر) باجوہ سے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میں یہ سمجھتا ہوں کہ دیکھیں باجوہ صاحب اور عمران خان صاحب کسی بھی ذریعے سے دس پندرہ منٹ کے لیے آپس میں بیٹھ گئے توان کے سارے اختلاف دور ہو جائیں گے۔ اب انہی اختلافات کی کمائی شریف کھا رہے ہیں۔ ان کی ہمیشہ سے یہی رہی ہے کبھی سیاست پلے سے کی ہی نہیں۔ لوگوں کے پیسے لگواتے ہیں موج خود اڑاتے ہیں۔ دیکھیں نہ ہیرے پہن کے کون پھرتی ہے؟‘