پاکستان کے جنوب مشرقی صوبے سندھ کے شہر میرپور خاص میں احمدی کمیونٹی کی عبادت گاہ میں توڑ پھوڑ کا واقعہ پیش آیا ہے۔
جمعرات (4 مئی 2023) کو میرپور خاص کے علاقے ڈھولن آباد میں واقع احمدیوں کی عبادت گاہ پر ایک جتھے نے حملہ کیا اور عبادت گاہ کی چھت پر چڑھ کر مینار توڑ دئے۔
حملے میں عبادت گاہ کے اندرونی حصے کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا، جبکہ چار میں سے تین تین مینار ہی توڑے گئے اور محراب میں صرف ایک سوراخ کیا گیا۔
ترجمان جماعت احمدیہ عامر محمود کی جانب سے جاری بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حملہ آوروں کی تعداد سو سے زائد تھی، تاہم سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں تعداد کافی کم دکھائی دے رہی تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حملہ آور ڈھولن آباد کے مقامی نہیں تھے، بلکہ میرپور خاص کے قرب میں واقع کسی گوٹھ سے آئے تھے۔
ذرائع کے مطابق میرپور خاص تقریباً 20 لاکھ نفوس کی آبادی والا ایک چھوٹا شہر ہے، جس میں احمدی کمیونٹی کی دو ہی عبادت گاہیں موجود ہیں۔
ان میں سے ایک سیٹلائٹ ٹاؤن میں ہے اور دوسری ڈھولن آباد میں ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سیٹلائٹ ٹاؤن والی عبادت گاہ میں کمیونٹی کی سرگرمیاں ہوتی رہتی ہیں، لیکن ڈھولن آباد والی عبادت گاہ تقریباً دس بارہ سال سے بند ہے۔
جماعت احمدیہ نے الزام عائد کیا کہ پولیس واقعے کا مقدمہ درج نہیں کر رہی۔
اس حوالے سے پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر تو درج کی جائے گی اور اس حوالے سے پولیس حکام اور جماعت احمدیہ سے مشاورت بھی جاری ہے۔
پولیس، سی ٹی ڈی اور ڈی آئی بی اس حوالے مشاورت کے بعد لائحہ عمل طے کریں گے۔
پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس واقعے سے قبل مذکورہ عبادت گاہ کے حوالے سے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی تھی۔
اقلیتی کمیونٹی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سال 2023 کے دوران سندھ میں پہلے ہی پانچ مختلف احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حملہ کیا جاچکا ہے۔
18 جنوری کو حملہ آوروں کے ایک گروپ نے کراچی کے علاقے مارٹن روڈ میں احمدیہ بیت الذکر پر حملہ کیا، اور دو فروری کو صدر میں احمدیہ ہال میں توڑ پھوڑ کی گئی۔
اسی طرح تین فروری کو نامعلوم افراد نے گوٹھ چوہدری جاوید احمد میرپور خاص میں احمدیہ بیت الذکر کے مینار گرا کر آگ لگا دی۔
تین فروری کو ہی عمرکوٹ کے نور نگر میں احمدیوں کی عبادت گاہ نذر آتش کی گئی۔
بیان میں کہا گیا کہ چار فروری کو، نامعلوم افراد نے سیٹلائٹ ٹاؤن، میرپور خاص میں احمدیوں کی عبادت گاہ پر اس وقت فائرنگ کی، جب کچھ لوگ اندر موجود تھے۔
1974 میں آئین پاکستان میں ترمیم کے بعد سے احمدیوں نے ایسی چند ہی عبادت گاہیں تعمیر کیں جن میں مینار موجود تھے۔
جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان امیر محمود نے 18 اپریل کو آج نیوز سے گفتگو میں کہا تھا کہ ”میناروں والی عبادت گاہ تو چھوڑیں ہمیں ربادت کیلئے ایک سادہ ہال تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔“
انہوں نے کہا تھا کہ 1974 کی آئینی ترمیم کے بعد کئی احمدیوں کی عبادت گاہوں کو یا تو سیل کر دیا گیا یا احمدیوں سے لے لیا گیا۔
متعدد مقدمات میں تحریک ختم نبوت کی نمائندگی کرنے والے وکیل منظور میو نے آج نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ احمدیہ عبادت گاہ پر میناروں کو ہٹانے کا جواز پیش کیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ اپنی ملکیت کو واپس لینے کے مترادف ہے۔
تاہم کیا کوئی ایسا قانون ہے جو احمدیوں کو اپنی عبادت گاہوں پر مینار لگانے سے روکتا ہو؟ اور اگر قوانین احمدیوں کو مسلم عبادات اور رسومات کے استعمال سے منع کرتے ہیں، تو کیا ان کو ختم کرنا قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے مترادف ہے، جب کہ قانونی چارہ جوئی دستیاب ہو؟
ان سوالات پر جو وضاحت پیش کی گئی ہے اس کی جڑیں پاکستان کی قانونی اور آئینی تاریخ میں موجود ہیں۔
1974 کی آئینی ترمیم میں اس بات کی وضاحت کی گئی تھی کہ کون مسلمان کہلا سکتا ہے اور کون غیر مسلم۔ جو شخص حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت کو نہیں مانتا وہ مسلمان نہیں ہے۔
ترمیم میں خاص طور پر کہا گیا ہے کہ ”قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کے افراد (جو خود کو ’احمدی‘ کہتے ہیں) غیر مسلم ہیں۔“
اس ترمیم میں احمدیوں پر کوئی واضح پابندیاں عائد نہیں کی گئیں۔ یہ 1984 کا آرڈیننس تھا جس میں احمدیوں کو اپنی عبادت گاہ کو ”مسجد“ کہنے اور اپنے عقیدے کی تبلیغ کرنے سے منع کیا گیا تھا۔
اگرچہ اس آرڈیننس میں بھی میناروں پر کوئی واضح پابندی نہیں لگائی گئی، لیکن اس کی بہت سی تشریحات میں قبول کیا گیا کہ مینار اور محراب بھی شعائر اسلام میں سے ہیں اور احمدی انہیں استعمال نہیں کر سکتے۔
اس آرڈیننس کو کبھی بھی عدالت نے رد نہیں کیا کیونکہ یہ 1974 کی ترمیم پر مبنی تھا، جس کے بہت دور رس نتائج ہیں۔
احمدیہ برادری نے 1984 کے آرڈیننس کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں چیلنج کیا۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے 1993 میں ایک فیصلہ دیا، جس میں یہ قرار دیا گیا کہ آرڈیننس ”مناسب“ تھا۔
منظور میو کہتے ہیں کہ 1993 کے سپریم کورٹ کے فیصلے نے واضح کیا کہ احمدیوں کو یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ایک خاص مذہب کے پیروکار ہیں جو اسلام نہیں ہے۔ ایک اقلیت کے طور پر ان کے حقوق کا قانون کے ذریعے تحفظ کیا گیا تھا، لیکن وہ مسلم شناخت کو چرانے کی کوشش کر رہے تھے۔
1993 کا فیصلہ لکھنے والے جسٹس عبدالقدیر چودھری نے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی کہ کوکا کولا جیسی کمپنی اپنے برانڈ نام اور شناخت کے تحفظ کے لیے ہر حد تک جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ کوکا کولا کمپنی کسی کو بھی اپنی مصنوعات ان بوتلوں میں فروخت کرنے کی اجازت نہیں دے گی جس کا لیبل ”کوکا کولا“ ہے۔
لہٰذا، احمدیوں کو وہ اسلامی حروف تہجی استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، جن کا تعلق صرف مسلمانوں سے ہے۔
جماعت احمدیہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مینار ہندو مندروں اور گرجا گھروں پر بھی پائے جاتے ہیں، لہٰذا، یہ کوئی تعمیراتی خصوصیت نہیں تھی جو صرف ایک عقیدے کے لیے ہو۔
دوسری جانب وکیل منظور میو کا استدلال ہے کہ بہت سے احمدی عبادت گاہیں اصل میں مساجد کے طور پر قائم کی گئی تھیں اور ان کی زمین حکومت نے ”مسلمانوں“ کو الاٹ کی تھی۔
انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے سامنے مسجد کے کنٹرول سے متعلق کیس کی مثال دی۔
احمدیوں نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے 1863 میں حکومت سے زمین لیز پر حاصل کرنے کے بعد مسجد قائم کی تھی اور 1962 میں 99 سالہ لیز ختم ہونے کے بعد انہیں اپنے نام پر لیز میں توسیع کا پورا حق حاصل ہے۔
میو کہتے ہیں، صرف ایک مسئلہ یہ تھا کہ 1863 میں احمدیہ عقیدہ موجود نہیں تھا۔ اس کے بانی مرزا غلام احمد 1835 میں پیدا ہوئے اور انہوں نے 1889 میں ہی اپنے آپ کو نبی قرار دیا۔
نوٹ: اس آرٹیکل کے کچھ حصے آج انگلش پر شائع ایک مضمون سے لئے گئے ہیں۔