شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کانفرنس میں شرکت کیلئے آج جمعرات کو گوا پہنچنے والے بلاول بھٹو زرداری 2011 کے بعد بھارت کا دورہ کرنے والے پہلے پاکستانی وزیر خارجہ ہوں گے۔ تاہم کہا جا رہا ہے کہ اس موقع پر پاکستان اور بھارت کے درمیان دوطرفہ مذاکرات کا کوئی امکان نہیں۔ اسی بنا پر پہلے یہ خیال ظاہر کیا جا رہا تھا ک بلاول شاید بھارت نہ جائیں۔ لیکن اب فارن پالیسی میگزین نے اس سوال کا جواب دے دیا ہے کہ تعلقات میں بہتری کی امید نہ ہونے کے باوجود بلاول گوا کیوں گئے ہیں۔
بھارتی حکومت جمعرات اور جمعہ کو ساحلی شہر گوا میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے وزرائے خارجہ کی میزبانی کررہی ہے، وزرائے خارجہ کا یہ اجلاس شنگھائی تعاون تنظیم کے رہنماؤں کے جولائی میں نئی دہلی میں ہونے والے سربراہی اجلاس سے قبل ہو رہا ہے۔
دہلی میں 12 سال قبل اس وقت کی وزیر خارجہ حناربانی کھر نےبھارتی ہم منصب ایس ایم کرشنا سے ملاقات کی تو تب حالات مختلف تھے۔
فارن پالیسی میگزین کے لے تحریر میں امریکی تھنک ٹینک ولسن سینٹر کے مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ اس وقت کا سفارتی لمحہ مفاہمت کی کوششوں کے لیے موزوں تھالیکن آج یہ ایک مختلف کہانی ہے۔
میگزین کے مطابق بعض مبصرین نے بلاول کے بھارت جانے پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ کیا مصالحت کی کوشش پرکام ہو رہا ہے۔ لیکن اسلام آباد کے لیے یہ دورہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے اور اپنی خارجہ پالیسی کے مفادات آگے بڑھانے کے بجائے نئی دہلی کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش ہے۔
سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنی حالیہ یادداشت میں دعویٰ کیا ہے کہ 2019 میں بھارت نے کشمیر میں بھارتی فوجیوں پر عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد پاکستانی علاقے میں حملے کیے تھے جس کے بعد دونوں ممالک جوہری جنگ کے قریب پہنچ گئے تھے۔
ادھر برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کا خیال ہے کہ دورے کے موقع پر پاکستان اور بھارت کے درمیان برف پگھلنے کی امید ہے۔
بی بی سی کے مطابق شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد 2001 میں وسطی ایشیا میں سلامتی اور اقتصادی امور پر تبادلہ خیال کے لیے رکھی گئی تھی جس کی سربراہی پاکستان کا اہم اتحادی چین اور پاکستان کا ایک اہم ابھرتا ہوا دوست روس کر رہا ہے۔تنظیم میں وسطی ایشیا سے تعلق رکھنے والے 4 ارکان بھی شامل ہیں، ایک ایسا خطہ جس میں اسلام آباد تجارت، رابطے اور توانائی کے لیے مزید تعاون کی امید رکھتا ہے۔ کوگلمین کا کہنا ہے کہ ’کانفرنس میں شرکت نہ کرنے سے پاکستان کے ایک ایسی تنظیم سے الگ تھلگ ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا جو اس کے مفادات کو انتہائی اہمیت دیتی ہے۔‘
اس کانفرنس کے دوران بلاول اور ان کے بھارتی ہم منصب ایس جئے شنکر کے درمیان دو طرفہ ملاقات متوقع نہیں ہے، تاہم سیاسی امور پر گہری نظررکھنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ دورہ وسیع تر دو طرفہ تناظر میں بہت اہم ہے۔
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کا بھی کہنا ہے کہ ، ’یہ دورہ، ذاتی طور پرتعلقات میں کسی قسم کی سرد مہری کی نمائندگی نہیں کرتا۔
مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ ، ’پاکستانی وزیر خارجہ کے دورے کو دو طرفہ نہیں بلکہ کثیر الجہتی عینک سے دیکھنا بہتر ہے۔ وہ دہلی کے ساتھ مصالحت نہیں کریں گے۔ وہ علاقائی تنظیم کی ایک کانفرنس میں شرکت کرنے جا رہے ہیں جو پاکستان کے مفادات کے لئے کافی اہمیت کی حامل ہے۔‘
کوگلمین کے مطابق جنگ بندی نے چیزوں کو قابو میں رکھا ہے۔ جب بھارت نے گزشتہ سال غلطی سے ایک سپرسونک میزائل پاکستان پر فائر کیا تواس واقعے کو سنگین بحران میں تبدیل کیے بغیرپاکستان کی جانب سے مذمتی بیان جاری کیا گیالیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ رشتہ محفوظ جگہ پر ہے ”آج، دونوں فریقوں کو بڑھنے والی سیڑھی پر واپس لے جانے کے لیے صرف ایک محرک، ایک اشتعال کی ضرورت ہوگی“۔
پاکستان میں ہندوستان کے سابق ہائی کمشنر ٹی سی اے راگھون کا ماننا ہے کہ ’تعلقات گزشتہ دو سال سے مستحکم ہیں لیکن نچلی سطح پر ہیں۔‘
کوگلمین کا مزید کہنا ہے حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک کشیدگی کو کم رکھنے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ پاکستان کو اندرونی خلفشار کا سامنا ہے اور وہ بھارت کے ساتھ نئے بحران کا متحمل نہیں ہوسکتا جبکہ بھارت چین کے حوالے سے فکرمند ہے، جو اس کا سب سے بڑا سیکیورٹی چیلنج ہے اور وہ پاکستان سے اپنے مغربی محاذ پر اضافی پریشانی پیدا نہیں کرنا چاہتا ہے۔
لیکن اگر دونوں فریق تناؤ کو کم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، تو ہندوستان میں ہونے والا سربراہی اجلاس دیرپا مصالحت کو آگے بڑھانے کا موقع کیوں نہیں ہے؟ ظاہر ہے کہ سیاست اس کی راہ میں حائل ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر امن قائم کرنے کی کوششیں کی گئیں تو دونوں ممالک میں عوامی رد عمل سامنے آئے گا۔ یہ خاص طور پر پاکستان میں مہنگا پڑے گا جہاں حکومت پہلے ہی انتہائی غیر مقبول ہے۔
بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کارکنوں نے 17 دسمبر 2022 کو کولکتہ میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں بھٹو زرداری کے مبینہ توہین آمیز تبصرے کے خلاف احتجاج کے دوران پاکستان کے قومی پرچم اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے پلے کارڈز جلائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہر ملک یہ سمجھتا ہے کہ رسمی بات چیت کے لئے اس کی بنیادی شرط پوری نہیں ہوئی ہے: بھارت دہشت گردی کے بارے میں مزید کچھ کرنا چاہتا ہے، اور پاکستان چاہتا ہے کہ بھارت اپنی کشمیر پالیسی کو تبدیل کرے۔
واشنگٹن ڈی سی کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے حسن عباس کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات ’بہترین وقت میں بھی غیر یقینی‘ ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں میں سیاسی پولرائزیشن نے صورتحال کو مزید غیر محفوظ بنا دیا ہے۔
دوسری جانب شنگھائی تعاون تنظیم میں بھارت کا اثرورسوخ اس کے تحریف چین کی موجودگی کی وجہ سے محدود ہے۔ یوکرین کی جنگ نے ماسکو کو بیجنگ کے قریب لاکھڑا کیا ہے جس کا مطلب شنگھائی تعاون تنظیم میں روسی اثر و رسوخ میں کمی اور چین کے لیے مزید طاقت ہو سکتی ہے۔
فارن پالیسی میں شائع رپورٹ کے مطابق پاکستان کی طرح بھارت بھی وسائل سے مالا مال وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھانے کا خواہاں ہے۔ یہ خطہ خاموشی سے دونوں ممالک کے درمیان مسابقت کا میدان جنگ بن چکا ہے۔ بھارت کو افغانستان تک براہ راست زمینی رسائی حاصل نہیں جو وسطی ایشیا کا ایک اہم گیٹ وے ہے تاہم اس نے خطے کی حکومتوں کے ساتھ باقاعدگی سے ملاقاتوں کے لئے نئے میکانزم قائم کیے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کی شرکت کا مقصد یہ اشارہ دینا ہو سکتا ہے کہ جب وسطی ایشیا کی بات آتی ہے تو وہ خطے میں بھارت کی مزید مقبولیت یا پزیرائی نہیں چاہتا۔
ایسا نہیں ہے کہ پاکستان بلاول کے دورے کو بھی دو طرفہ عینک سے نہیں دیکھ رہا، ملک میں سیاسی اور معاشی بحران کے پیش نظر اسلام آباد نئی دہلی کے ساتھ تناؤ کم رکھنے کا خواہاں ہے۔ یہ دورہ دو سال سے زائد عرصے کے نسبتا مستحکم تعلقات کو فروغ دے گا۔ یہ اعتماد سازی کا اقدام ہو سکتا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق پاکستان نے بلاول اور ان کے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر کے درمیان ملاقات کی درخواست کی تھی جبکہ پاکستانی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس کی تردید کی ہے۔ کسی بھی طرح سے پاکستانی وزیر خارجہ کے دورے کو مصالحتی عمل شروع کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھنا گمراہ کن ہوگا۔ گزشتہ ماہ ہی بھارتی حکام نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا تھا۔
فارن پالیسی کے مطابق نئی دہلی اسلام آباد میں ایک کمزور اورغیر مقبول انتظامیہ کے ساتھ بات چیت پر سیاسی سرمایہ خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگا ، خاص طور پر اس وقت جب کہ بھارت میں انتخابات میں صرف ایک سال باقی ہے۔
یہ دورہ پاکستان کے لیے علاقائی ضرورت ہے نہ کہ دو طرفہ۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس میں شرکت نہ کرنے سے اسلام آباد تنظیم کے اندر اپنا اثر و رسوخ کھونے کا خطرہ مول لے گا۔