وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ جس طرح چیف جسٹس عمر عطاء بندیال ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے بحال ہوئے اسے طرح ان کی چھٹی بھی ہوسکتی ہے۔
نجی ٹی وی سماء کو دیئے گئے انٹرویو میں رانا ثناء اللہ نے کہا کہ چیف جسٹس سمیت تین جج صاحبان کے رویے کی وجہ سے پارلیمنٹ میں جارحانہ تقاریر کی جا رہی ہیں، الیکشن کیس 9 رکنی بینچ سے شروع ہو کر 2-3 پر آگیا، 63 اے کے کیس سے متعلق پی ڈی ایم کے علاوہ سابق ججز کا بھی مؤقف تھا کہ آئین ری رائٹ کیا گیا۔
رانا ثناء کا کہنا تھا کہ سینئر جج منصور علی خان اور جسٹس اطہر من اللہ نے کہا جج کے روپ میں یہ سیاستدان ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ساتھ پارلیمنٹ کا وجود بھی اس وقت خطرے میں ہے، اگر سپریم کورٹ وفاقی کابینہ کو بلاکر توہین عدالت کا نوٹس دیتے ہیں تو پارلیمنٹ رسوا یا اسے رسوا کرنے والے خود رسوا ہوں گے۔
سپریم کورٹ توہین عدالت کا نوٹس جاری کرے گا، وزیر داخلہ کا عندیہ
رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ حکومت، پارلیمنٹ اور ن لیگ کے لئے اس سے پیچھے ہٹنے کا کوئی راستہ نہیں، دونوں اداروں کے درمیان اگر لڑائی برقرار رہی تو کوئی بھی گھر جا سکتا ہے، سپریم کورٹ توہین عدالت کا نوٹس جاری کرے گا اور اگر توہین عدالت فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوا تو سجاد علی شاہ کی طرز پر انہیں گھر جانا پڑے گا۔
ایگزیکٹیو آرڈر واپس لینے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ عمر عطاء بندیال کی بحالی ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے ہوئی تھی، اب کوئی راستہ نکلے گا یا تصادم ہوا تو بڑی تباہی ہوگی، البتہ بقاء کی جنگ آخری لڑی جائے گی اور اگر ایسا وقت آیا تو دستیاب ہتھیاروں کو استعمال کیا جائے گا، لہٰذا جس طرح چیف جسٹس بحال ہوئے اسی طرح ان کی چھٹی بھی ہوسکتی ہے۔
اگر رجسٹرار پارلیمنٹ نہیں آئے تو پارلیمنٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کریں گے
رجسٹرار سپریم کورٹ کی پبلک اکاؤنٹ کمیٹی میں طلبی سے متعلق وزیر داخلہ نے کہا کہ اگر رجسٹرار پارلیمنٹ نہیں آئے تو پارلیمنٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کریں گے یا پھر ہم سپریم کورٹ کے بلانے پر پیش نہیں ہوں گے۔
ایف آئی اے ثاقب نثار کو طلب کرسکتی ہے
ثاقب نثار کے بیٹے کی مبینہ آڈیو لیک کی تحقیقات پر رانا ثناء اللہ نے کہا کہ آڈیو لیک اپنے طور پر چیک کیا وہ درست ہے، اس کی تحقیقات ہونی چاہئے، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) ثاقب نثار کو طلب کرسکتی ہے، وہ خود تسلیم کرچکے ہیں کہ یہ آڈیو لیک میں ان کی آوازیں ہیں۔
پارلیمانی کمیٹی چاہے تو جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف تحقیقات ہوسکتی ہے
وزیر داخلہ نے کہا کہ جسٹس شوکت صدیقی کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی دیکھے گی، کمیٹی تشکیل ہوچکی ہے، میں سمجھتا ہوں فیض حمید اور ثاقب نثار کے خلاف تحقیقات ہونی چاہئے، ادارے کو ایسے لوگوں کے پیچھے کھڑا نہیں ہونا چاہئے، پارلیمانی کمیٹی چاہے تو جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف تحقیقات ہوسکتی ہے۔
ہمارے کچھ لوگ جنرل (ر) باجوہ کو ایکسٹینشن دینے کے حق میں تھے، رانا ثناء کا انکشاف
سابق آرمی چیف کی مدت ملازت میں توسیع کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ باجوہ صاحب خود کو توسیع دیئے جانے کے حق میں تھے جب کہ ہمارے کچھ لوگ جنرل (ر) باجوہ کو ایکسٹینشن دینے کے حامی تھے لیکن نواز شریف کا سخت موقف نہ ہوتا تو شاید انہیں توسیع مل جاتی۔
اسٹیبلشمنٹ سیاستدانوں کے چہرے پر کالک ملنے کا دھندہ کافی عرصے سے کرتی رہی
وزیر داخلہ نے کہا کہ عمران خان خود کو پاکیزہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تسلیم کریں یہ استعمال ہوئے ہیں، عمران خان اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ ہے، اسٹیبلشمنٹ اور فوجی حکومتیں اپنے مقصد کے لئے سیاستدانوں کے چہرے پر کالک ملنے کا دھندہ کافی عرصے سے کرتی آرہی ہیں اور جب ہمیں اس دھندے کا پتہ چلا تو ن لیگ، پی پی نے چارٹر آف معیشت کرلیا۔
انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے موجودہ کردار پر رانا ثناء اللہ نے کہا کہ اگر آج ماضی کی طرح اسٹیبلشمنٹ و ایجنسیوں کا کردار ہوتا تو عمران خان اور ان کے لوگوں کو اس طرح ضمانتیں نہ ملتیں۔
ان کا کہنا تھا کہ چوہدری پرویز الہی کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھے، اگر وارنٹ لیکر گئے تھے تو گرفتاری دے دیتے، چوتھے دن ضمانت ہوجاتی، چوروں کی طرح چھپ کر بیٹھنا یا دیوار پھلانگنا غلط ہے، البتہ جس طرح ان کے گھر کی دیواریں پھلانگی گئیں وہ بھی غلط تھا، مجھے اس بات پر افسوس ہے۔
عمران خان نے قتل ہونے سے پہلے ہی ہم پر ایف آئی آر کٹوائی ہوئی ہے
وزیر داخلہ نے کہا کہ عمران خان کو مذہبی گروپ سے بہت زیادہ سکیورٹی تھریٹ ہے، انہیں احتیاط کرنی چاہئے، عمران خان نے قتل ہونے سے پہلے ہی ہم پر ایف آئی آر کٹوائی ہوئی ہے۔