امریکہ نے پاکستان میں انگریزی زبان کی ترویج اور نوجوان ٹرانسجینڈرز (خواجہ سراؤں) کو انگریزی سکھانے کے لیے پانچ لاکھ ڈالرز کی گرانٹ مختص کر دی ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے ”فاکس نیوز“ کی رپورٹ کے مطابق بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے مختص کی جانے والی یہ گرانٹ ایسے پروگراموں کے لیے بھی فراہم کی جائے گی جو خاص طور پر نوجوان ٹرانسجینڈرز کو انگریزی زبان سکھانے میں مدد کریں گے۔
امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ پانچ لاکھ ڈالرز کی گرانٹ کا مقصد پاکستان میں نوجوانوں کی انگریزی کو بہتر کرنا ہے تاکہ وہ بین الاقوامی سطح پر زیادہ بہتر کردار ادا کرسکیں اور پیشہ ورانہ طور پر بھی انہیں فائدہ ہو۔
فاکس نیوز کی رپورٹ کے مطابق، محکمہ خارجہ نے اس گرانٹ کے تین بنیادی مقاصد وضع کئے ہیں، جن میں انگریزی پڑھانے والے ان اساتذہ کی تربیت شامل ہے جو ملک کے اہم یا بڑے اداروں سے وابستہ نہیں ہیں یا پھر وہ اساتذہ جنہوں نے حال ہی میں تدریس کا عمل شروع کیا ہے۔
ٹرانسجینڈز کی پروفیشنل تربیت بھی اس پروگرام کا حصہ ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں موجود افغان اساتذہ، طلبہ اور نوجوان پروفیشنلز بھی اس پروگرام سے مستفید ہو سکیں گے۔
اس پروگرام کے تحت 13 سے 25 برس کے ٹرانسجینڈرز کے لیے، پروفیشنل ڈویلپمنٹ کورسز کے بارے میں پروپوزلز کے لیے 25 ہزار سے 75 ہزار ڈالرز تک کی گرانٹ فراہم کرنے کی درخواستیں منظور کی جائیں گی۔
واضح رہے کہ پاکستان نے 2018 میں قومی اسمبلی نے ’ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ‘ منظور کیا تھا جس کی امریکہ نے بھی تعریف کی تھی۔
اس قانون میں ٹرانسجینڈرز کو پاکستان کے دیگر شہریوں کی طرح تعلیم، روزگاراور صحت کی یکساں سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ انہیں وراثت کا بھی حق دار قرار دیا گیا ہے۔اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کو جرم قرار دیا گیا ہے۔
اس ایکٹ میں ٹرانسجینڈرز کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ جب وہ 18 سال کی عمر کو پہنچیں تو اپنی جنس کا خود تعین کرکے اسے سرکاری ریکارڈ میں تبدیل کرا سکتے ہیں۔ جس پر مذہبی اور سماجی حلقوں میں شدید غم و غصہ پایا گیا تھا۔
بل میں تمام سرکاری اداروں کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ ٹرانسجینڈرز جو شناخت چاہیں وہی ان کے شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ پر درج کی جائے۔