دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل غزہ کے قریب اسرائیلی علاقوں میں راکٹ حملے کی اطلاع دینے والے سائرن گونج اٹھے۔
اسرائیلی جیل میں بھوک ہڑتال کی وجہ سے ایک فلسطینی قیدی کی وفات کے بعد منگل کو راکٹ باری اور سائرن بجنے کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔
عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق غزہ میں مسلح دھڑوں کی نمائندگی کرنے والے ایک گروپ نے اسرائیل پر داغے گئے راکٹوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس گروپ میں حماس اور جہاد اسلامی بھی شامل ہیں۔
گروپ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مشترکہ کمان شہید کا سوگ مناتی ہے اور اس گھناؤنے جرم کے ابتدائی جواب میں غزہ کے قریب نام نہاد بستیوں پر راکٹوں سے بمباری کی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔
فلسطینی مزاحمتی تنظیم جہاد اسلامی سے وابستہ خضر عدنان 87 روزہ بھوک ہڑتال کے بعد منگل کے روز اسرائیلی جیل میں انتقال کرگئے تھے۔
اسرائیلی حکام نے بتایا کہ خضر عدنان نے طبی ٹیسٹ اور علاج کروانے سے انکار کر دیا تھا۔ منگل کی صبح خضر عدنان اپنے سیل میں بے ہوش پائے گئے۔
ناجائز قید کے خلاف بھوک ہڑتال کرکے شہادت پانے والے خضر کے حوالے سے ”اسلامی جہاد“ نے کہا ہے کہ ہماری لڑائی جاری ہے۔ دشمن ایک بار پھر جان لے گا کہ اس کے جرائم کا جواب دیا جائے گا۔ ہماری مزاحمت پوری طاقت اور عزم کے ساتھ جاری رہے گی۔
اس بیان کے تھوڑی دیر بعد غزہ کی پٹی کے قریب اسرائیلی سرحدی آبادیوں میں سائرن بجنے لگے اور لوگوں کو پناہ کے لیے بھیج دیا گیا۔
اسرائیلی فوج نے تصدیق کی کہ غزہ کی پٹی سے اسرائیلی آبادیوں کی طرف تین راکٹ داغے گئے ہیں۔ یہ راکٹ کھلے مقامات پر گرے اور کوئی نقصان نہیں ہوا۔
غزہ میں قیدیوں کی ایسوسی ایشن ”ڈبلیو اے ای ڈی“ نے رائٹرز کو بتایا کہ خضر عدنان کو سرد مہری سے مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ خضر عدنان کی وفات کا ذمہ دار اسرائیل ہے۔
واضح رہے کہ 45 سالہ عدنان مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر جنین کے رہائشی تھے اور اسلامی جہاد کی ایک مشہور شخصیت تھے۔
انہیں اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں گرفتار کر لیا تھا۔ گروپ ”اسلامی جہاد“ بھی حماس کی طرح فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کی مخالفت کرتا ہے۔
فلسطینی قیدیوں کی ایسوسی ایشن کے مطابق عدنان کو اسرائیل نے 12 مرتبہ حراست میں لیا۔
انہوں نے تقریباً آٹھ سال قید میں گزارے۔ ان آٹھ سالوں میں سے زیادہ تر وقت وہ انتظامی حراست میں رہے۔
خضر عدنان نے 2004 سے مختلف اوقات میں قید کے دوران کم از کم پانچ مرتبہ بھوک ہڑتال کی تھی۔