Aaj Logo

شائع 30 اپريل 2023 06:36pm

جرمن ڈاکٹروں کی موت کو پلٹانے اور مردہ انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش

جرمنی میں قائم ایک کرائیو پریزرویشن اسٹارٹ اپ ”ٹومورو بائیواسٹاسس“ کی ویٹنگ لسٹ طویل ہوتی جارہی ہے، اور اس کی خدمات حاصل کرنے کے خواہش مند سینکڑوں میں پہنچ چکے ہیں۔ کمپنی کے پاس پہلے ہی تقریباً 10 کیسز ہیں جن میں سے کچھ لاشیں لیب میں محفوظ ہیں۔ لیکن آگے کیا ہوگا؟ اصل مسئلہ یہ ہے۔

ٹیک ای یو کی ایک رپورٹ کے مطابق، کمپنی کے شریک بانی ایمل کینڈزیورا یورپ کی پہلی کرائیوجینک کمپنی شروع کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں (ان میں سے کچھ پہلے ہی امریکہ میں موجود ہیں)۔

کینڈزیورا کا مقصد کیا ہے؟

جیسے ہی کسی کی موت ہوتی ہے، ٹومورو بائیواسٹاسس فوری طور پر اس شخص کے جسم اور دماغ کو جمود کی حالت میں محفوظ کرنے کا عمل شروع کردے گا۔

پھر مستقبل میں جب سائنس اس قابل ہوجائے گی کہ ممکن ہوسکے تو کمپنی اس شخص کی موت کی اصل وجہ کا علاج کرے گی اور اسے واپس زندہ کردے گی۔

فی الحال پلان تو یہی ہے۔

کینڈزیورا کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی کے پاس ”تقریباً 10 لاشیں“ پہلے ہی تربیتی مقاصد کے لیے محفوظ ہیں اور سینکڑوں مزید ویٹنگ لسٹ (انتظار کی فہرست) میں ہیں۔

کمپنی کے عام گاہکوں کی عمر اوسطاً 36 سال ہے اور وہ ٹیک انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔

ان میں سے کچھ لوگ صرف اپنے دماغ کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں، اور ان کا خیال ہے کہ مستقبل میں ان کے لوگ ایک نیا تھری ڈی پرنٹڈ جسم بنا سکیں گے۔

لاشوں کو یوروپئین بائیواسٹاسس فاؤنڈیشن میں طویل مدت تک ذخیرہ کرنے کے لیے سوئٹزرلینڈ کے شہر رفز لے جایا جاتا ہے۔

اس عمل کو قانونی بنانے کیلئے تکنیکی طور پر اسے سائنسی خدمات کیلئے جسم کا عطیہ سمجھا جاتا ہے۔

ان لاشوں کو 196 ڈگری سینٹی گریڈ تک ٹھنڈا کیا جاتا ہے اور ایک انسولیٹڈ ٹینک کے اندر رکھا جاتا ہے، جس میں مائع نائٹروجن بھری ہوتی ہے۔

بلاشبہ، طبی ترقی کا اس مقام تک پہنچنے کا انتظار کرنا کہ موت کو پلٹایا جاسکے اس پورے کرائیو پریزرویشن تصور میں واحد رکاوٹ نہیں ہے۔

ایک چھوٹا سا مسئلہ یہ بھی ہے کہ کسی کو یہ نہیں معلوم کہ مردہ کرائیوپریزروڈ انسان کو حقیقت میں کیسے زندہ کیا جائے۔

خلیات اور ٹشوز کو محفوظ رکھنے کے لیے دماغ کو منجمد تو کیا جاسکتا ہے، لیکن پہلے سے مردہ دماغ کو باقاعدہ کام اور یادوں کے ساتھ زندہ کرنا ہماری دنیا میں ابھی تک نظریاتی طور پر بھی ممکن نہیں ہے۔

Read Comments