وزیر خارجہ اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ وقت آگیا ہے ایک لکیر کھینچی جائے تاکہ کوئی وزیراعظم توہین عدالت پر عہدے سے فارغ نہ ہو۔
قومی اسملی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ پی ٹی آئی والے کبھی کہتے ہیں استعفے لو کبھی واپس لو، آئین کے مطابق 60 دنوں میں ان نشستوں پر بھی ضمنی انتخابات ہونے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے اسٹے دلانے پر یہ الیکشن 90 دن سے آگے چلے گئے، ملک میں تماشہ چل رہا ہے، 90 دنوں کی شق کا پختونخوا میں عمل درآمد نہیں ہو رہا، ہم آئین کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہتے۔
عدلیہ کو آئین سے متعلق غلط فہمی ہے تو انہیں سمجھانے کیلئے رضا ربانی کو بھیج سکتے ہیں
وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر اعلی عدلیہ کو آئین کے بارے میں غلط فہمی ہے تو انہیں سمجھانے کے لیے رضا ربانی یا پیپلز پارٹی کی کوئی کمیٹی بھیج سکتے ہیں۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ جس ادارے نے آئین کی پاسداری کرنی ہے وہ یہ کیسے اشارے دے سکتے ہیں کہ پارلیمان کو بھول جائیں اور اقلیتی بینچ کا فیصلہ مان لیں جب کہ عدالت کیسے وزیراعظم کو اشارہ دے سکتے ہیں منی بل پر اجازت ہی نہ مانگیں۔
اگر اعلیٰ عدلیہ پارلیمان کے حکم کو نظر انداز کا کہتی ہے تو ہم ماننیں کو تیار نہیںپی پی چیئرمین نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے کبھی آئین کی خلاف ورزی کا نہیں سوچا، ہم نے کسی آمر کے حکم پر آئین نہیں توڑا اور اگر اعلیٰ عدلیہ پارلیمان کے حکم کو نظر انداز کرنے کے لیے کہتی ہے تو ہم ماننیں کو تیار نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ توایگزکیٹو کے پاس اتھارٹی نہیں کہ وہ خود فیصلہ کرے کہ پاکستان کا پیسہ کہاں استعمال ہونا ہے، ہم صرف اس منتخب ادارے کے حکم کے پابند ہیں کسی اور ادارے کے حکم کے پابند نہیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم ہیڈلائنز نہیں بنارہے بلکہ تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے، ہم کل بھی اس ادارے کے ساتھ کھڑے تھے اور آج بھی کھڑے ہیں، ایوان تمام اداروں کی ماں ہے، اسی لئے ایگزیکٹو قومی اسمبلی کے حکم کی تعمیل کرنے کا پابند ہے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اگر اعلی عدلیہ اس ایوان سے غیر آئینی کام لینا چاہ رہی ہے تو پھر یہ توہین پارلیمان ہوا ہے، کیسے ہوسکتا ہے کوئی ادارہ ہمیں آئین توڑنے کا حکم دے، یہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔
وزیراعظم صاحب کا مذاق اڑانا ہم سب پر تنقید ہے
شہباز شریف کے حق میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے جارحانہ حکم دیا گیا، اس معاملے کو استحقاق کمیٹی میں بھیجا جائے، وزیراعظم صاحب کا مذاق اڑانا ہم سب پر تنقید ہے، ہم نے بہت برداشت کیا ہے، آخر کب تک برداشت کریں گے، کتنے وزرائے اعظم کو پھانسی پر چڑھایا، توہین عدالت لگی، لہٰذا اب ایک لکیر کھینچیں تاکہ کوئی ادارہ تجاوز نہ کرے۔
اپنے خطاب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ بل کو مسترد کر کے ہم وزیراعظم پر اعتماد کا اظہار اور چار، تین کے اکثریتی فیصلے کے ساتھ اظہار یکجہتی کررہے تھے، عدم اعتماد کا اظہار تین افراد کے خلاف کیا گیا ہے۔
تمام سیاسی جماعتیں مائنس ون ایک دن میں الیکشن کا مطالبہ کرتی ہیں
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اس آئینی بحران سے جمہوریت، وفاق، عوام اور معیشت کا نقصان ہے، نظر آرہا ہے دال میں کچھ کالا ہے، لہٰذا تمام سیاسی جماعتیں مائنس ون ایک دن میں الیکشن کا مطالبہ کرتی ہیں۔
عدلیہ کیا چاہتی ہے کہ تاریخ انہیں پی ٹی آئی کی ٹائیگر فورس کے طور پر یاد رکھے؟
چیئرمین پیپلز پارٹی نے مذاکرات کیلئے شرط بتاتے ہوئے کہا کہ عدلیہ اور پارلیمان اپنے اپنے ڈومین میں آجائیں، تبھی مذاکرات کیلئے اتحادیوں کو قائل کرنے میں آسانی ہوگی، عدلیہ سوچے کہ تاریخ انہیں کیسے یاد رکھے گی، عدلیہ کیا چاہتی ہے کہ تاریخ انہیں پی ٹی آئی کی ٹائیگر فورس کے طور پر یاد رکھے، اگر وہ سمجھیں تو ہماری جمہوریت بچ سکتی ہے۔