Aaj Logo

اپ ڈیٹ 27 اپريل 2023 01:27pm

انتخابات کیس : لگتا ہے حکومت صرف پاس پاس کھیل رہی ہے، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ میں ملک بھر میں ایک ہی روز الیکشن کی درخواست پر سماعت ملتوی ہوگئی۔

سپریم کورٹ میں ملک بھرمیں ایک روز انتخابات کرانے کی درخواست پرسماعت ملتوی ہوگئی ہے، چیف جسٹس عمربندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ بینچ کے دیگر ججز میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔

اٹارنی جنرل منصورعثمان روسٹرم پر آٸے اور مؤقف پیش کیا کہ 19 اپریل کو حکومت اور اپوزیشن میں پہلا رابطہ ہوا، 26 اپریل کو ملاقات پر اتفاق ہوا تھا، 25 اپریل کو ایاز صادق اور سعد رفیق کی اسد قیصرسے ملاقات ہوئی، اسد قیصر نے بتایا کہ وہ مذاکرات کیلئے با اختیار نہیں ہیں۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ گزشتہ روز حکومتی اتحاد کی ملاقاتیں ہوئیں، 2 جماعتوں کو مذاکرات پراعتراض تھا، راستہ نکالا گیا، چیئرمین سینیٹ نے حکومت اور اپوزیشن کو خطوط لکھے، چیئرمین سینیٹ نے حکومت اور اپوزیشن سے 4،4 نام مانگے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ چیئرمین سینیٹ سے کس حیثیت سے رابطہ کیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو جواب دیا کہ سینیٹ وفاقی کی علامت ہے اس لیے چیئرمین سینیٹ کو کہا، آپ کو معلوم ہے کہ وہ ایک ادارے کے سربراہ ہیں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ ہمیں آپ کا اعتماد چاہیے۔

پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کا مؤقف

وکیل فاروق نائیک نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ سارےعمل میں چیئرمین سینیٹ کا کردار مذاکرات کرانے کا ہے، چیئرمین سینیٹ ایک سہولتکار ہیں، پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کا حصہ نہیں، حکومت میں شامل ہے، 5،5 ممبران کو کمیٹی میں شامل کرنے کا چیئرمین سینیٹ نے لکھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 19 اپریل کو چیمبر میں آپ سے ملاقات ہوئی، فاروق نائیک نے کہا چیئرمین سینیٹ سہولت کاری کریں گے، چیئرمین سینیٹ نہ حکومت کے نمائندے ہیں نہ اپوزیشن کے، حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو خود اقدام اٹھاتی، مذاکرات کرنے پر عدالت مجبور نہیں کر سکتی، عدالت کو کوئی وضاحت نہیں چاہیئے صرف حل بتائیں، چیئرمین سینٹ اجلاس بلائیں گے اس میں بھی وقت لگے گا۔

فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ تمام حکومتی اتحادی جماعتیں مذاکرات پر آمادہ ہیں، سینیٹ میں تمام جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے، مذاکرات سیاسی جماعتوں کمیٹیوں نے ہی کرنے ہیں، سیاسی ایشو ہے، سیاسی قائدین کو ہی مسئلہ حل کرنے دیا جائے، سیاست کا مستقبل سیاستدانوں کو ہی طے کرنے دیا جائے۔

تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کا مؤقف

شاہ محمود قریشی نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ گزشتہ سماعت میں تمام جماعتوں کی سیاسی قیادت عدالت میں پیش ہوئی تھی، اور عدالت نے سیاسی اتفاق رائے کے لیے موقع دیا تھا، عدالتی حکم کو پی ٹی آئی نے سنجیدگی سے لیا لیکن پی ڈی ایم میں آج بھی مذاکرات پر اتفاق رائے نہیں، سپریم کورٹ کو 14 مئی کا فیصلہ حتمی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ سیاسی باتیں ہیں، ہم کیس کے بارے میں بات کر رہے ہیں، آپ کہہ رہے ہیں کہ سنجیدگی کے ساتھ رابطہ نہیں کیا گیا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پی ٹی آٸی بات چیت کیلٸے سنجیدہ ہے، ہم بیٹھنے کو تیار ہیں۔

سماعت پر مناسب حکم جاری کریں گے

عدالت نے ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات کیلئے درخواستوں پر سماعت ملتوی کردی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیاستدانوں کو خود سے مسائل کا حل نکالنا چاہیے، اگر مذکرات کے ذریعے حل نہ نکلا تو آئین بھی اور ہمارا فیصلہ بھی موجود ہے، ہم نہ کوئی ہدایت جاری کر رہے ہیں اور نہ ہی کوئی ٹائم لائن دیں گے، آج کی سماعت پر مناسب حکم جاری کریں گے۔

چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیا حکومت نے کمیٹی کیلئے اپنے نام دے دیے، حکومت نے نیک نیتی دکھانے کے لیے کیا اقدامات کیے، لگتا ہے حکومت صرف پاس پاس کھیل رہی ہے۔

نئی کاز لسٹ

اس سے قبل نئی کاز لسٹ نظر ثانی کے بعد جاری کی گئی جس میں کہا گیا ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت جمعرات کو دن ساڑھے 11 بجے اوپن کورٹ کے بجائے چیف جسٹس کے چیمبر میں ہوگی۔ جسٹس عمر عطاء بندیال 27 اپریل کو ان چیمبر ورک کریں گے۔

گزشتہ سماعت کا احوال

گزشتہ سماعت کے دوران انتخابات کرانے کے حوالے سے کیس کی سماعت 27 اپریل تک ملتوی کی تھی۔

چیف جسٹس نے سماعت کے دوران کہا تھا کہ اگر سیاستدان مل بیٹھ کر کوئی راستہ نکال لیتے ہیں تو بہتر ہے بصورت دیگر عدالت عظمیٰ کے پاس آئین سے پیچھے ہٹنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اپنا 14 مئی کا فیصلہ واپس نہیں لیں گے، عدالتی فیصلہ واپس لینا مذاق نہیں ہے۔

Read Comments