وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ الیکشن کے لئے جب بھی رقم نکلے گی وہ ایوان کی منظوری سے مشروط ہوگی۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اسپیکر راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایک شخص کی انا کی خاطر اسمبلیاں توڑی گئیں، سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ 183 تھری کے تحت کیس مناسب نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ 4 معزز ججز نے درخواستیں خارج کیں اور معزز ایوان نے قرارداد منظور کی جس میں سیاسی معاملے کو عدالت میں جس طرح دیکھا اس پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
وزیر قانون کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے دینے کی ہدایت کی تاہم اس ضمن میں ایوان پہلے ہی فیصلہ دے چکا تھا، اس لیے معاملہ قومی اسمبلی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ اور سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں گیا اور دونوں کمیٹیوں نے فیصلہ کیا کہ چار ججز کے فیصلے کو مانتے ہیں۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ بل اس ہاؤس میں بھیجا گیا تو معزز ایوان نے اسے مسترد کردیا جس کے بعد یہ معاملہ دوبارہ سپریم کورٹ کو رپورٹ کیا گیا اور عدالت نے اسٹیٹ بینک کو 21 ارب دینے کی ہدایت کی جب کہ وزارت خزانہ سے کہا گیا آپ یہ رقم بھجوائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین میں واضح ہے فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز میں چارجڈ خرچوں کے علاوہ کوئی بھی رقم کی منظوری دینا معزز ایوان کا اختیار ہے، البتہ یہ بات درست ہے وفاقی حکومت کئی بار کابینہ سے سپلیمنٹری گرانٹ دے چکی ہے۔
الیکشن فنڈز سے متعلق وزیر قانون نے مزید کہا کہ اس کیس میں عدالتی احکامات تھے اور ہاؤس کا وفاقی حکومت کو حکم تھا کہ ایوان کے سامنے رکھے بغیر فنڈز سے رقم دینی ہے تو منظوری کرائیں اور اگر آج 21 ارب روپے جاری کر بھی دیئے اور کل ہاؤس نے منظوری نہ دی تو قومی خزانے سے نکلی رقم کہاں گنی جائے گی۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئین پاکستان کے تحت ایوان نے اپنے حق کا استعمال کیا، سپریم کورٹ نے گزشتہ سماعت میں کچھ احکامات جاری کئے، دوبارہ حکم ہوا وفاقی حکومت فنڈز دے اور پارلیمان و حکومت کا معاملہ بعد میں طے ہوتا رہے گا۔
وزیر قانون کا کہنا تھا کہ آئین میں درج ہے کہ ایف سی ایف سے جب بھی رقم نکلے گی وہ ایوان کی منظوری سے مشروط ہوگی جب کہ ایوان کہہ چکا ہے یہ رقم ایف سی ایف سے نہیں دی جا سکتی۔