سابق چیف جسٹس ثاقب نثارنے پاکستان تحریک انصاف کے وکیل خواجہ طارق رحیم کے ساتھ سامنے آنے والی مبینہ آڈیو لیک کو ’پرائیویسی میں داخل اندازی‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ثابت کریں یہ میری گفتگو ہے۔
آڈیو لیک ہونے کے بعد آج نیوز سے بات کرتے ہوئے اپنے ردعمل میں سابق چیف جسٹس نے کہا کہ یہ پرائیویسی میں دخل اندازی کررہے ہیں، ثابت کریں کہ یہ میری گفتگو ہے۔
ثاقب نثارنے کہا کہ یہ آڈیو کسی جگہ استعمال نہیں ہوسکتی ، اس کی تشہیر کرنے والے بھی مجرم ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میری وکیل خواجہ طارق رحیم سے گفتگو ہوئی ہے اور میں نے پروفیشنل بات کی ہے، کوئی چوری نہیں کی ۔ جو مجھ سے مشورہ مانگے گا دوں گا۔ میں نے کون سا پاکستان کے خلاف بات کی ہے۔
سابق چیف جسٹس سے سوال کیا گیا کہ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیرتارڑ نے بھی پریس کانفرنس آپ کی آڈیو لیک کا ذکرکیا ہے؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ اعظم نذیر کو چھوڑیں، میں انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتا۔
تاہم انہوں نے واضح طور پرتردید نہیں کی یہ آڈیو ان کی نہیں ہے۔
واضح رہے کہ سوشل میڈیا پر ثاقب نثار اور خواجہ طارق رحیم کی مبینہ آڈیو وائرل ہے جس میں وہ پی ٹی آئی وکیل کی توہین عدالت کی درخواست پررہنمائی کررہے ہیں ۔
آج نیوز کی جانب سے اس آڈیو کے مصدقہ ہونے کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔
آغاز میں ثاقب نثارکا کہنا ہے ایک ججمنٹ ضرور دیکھ لینا، 7 ممبرججمنٹ ہے، اس پر خواجہ طارق نے سوال کیا کہ کتنی جی؟سابق چیف جسٹس نے بتایا کہ یہ سوموٹو ہے نمبر 4 آف 2010، سر یہ 7ممبر ججمنٹ سپریم کورٹ پیج نمبر 553 پررپورٹڈ ہے۔
خواجہ طارق نےجواب میں کہا کہ اچھا جی،میں دیکھ لوں گا۔ اس پر ثاقب نثار نے کہا کہ آپکا جو بھی وکیل ہے اس سے کہیں ذرا یہ دیکھ لے، اس میں ہے کہ بھئی ۔۔۔ ۔چلو خیرجب آپ پڑھو گے تو خود پتا لگ جائے گا۔
خواجہ طارق کہتے ہیں کہ میں پڑھ لوں گا، میں نے وہ 7ممبر بینچ والی ججمنٹ بھی دیکھ لی ہے، اس میں انہوں نے کہا ہے کہ جب تک ایکٹ نہیں بنتا، اسے اگر آپ غور سے پڑھیں تو کلاز تھری میں ہے۔
ثاقب نثار نے جواب دیا کہ جی جی،خواجہ طارق نے مزید کہا کہ اس میں انہوں نے راستہ بھی دیا ہوا ہے۔
اس پر سابق چیف جسٹس نے کہا کہ، ”جی سرمیں نے دیکھا ہے، وہی تو ہمارے پاس وے آؤٹ ہے، ورنہ تو کیس ہی نہیں بنتا“، اس پر خواجہ طارق نے کہا کہ جی بالکل ٹھیک ہے میں یہ بھی دیکھ لوں گا۔
جسٹس (ر) ثاقب نثارنے کہا کہ، ”دوسرا خواجہ صاحب اگرآپ کا کوئی بندہ تیار ہو، تو منیراحمد خان والا بھی استعمال کرلو، توہین عدالت ک کلیئر کیس ہے“۔ خواجہ طارق نے جواب میں کہا کہ وہ بھی ہو رہا ہے۔
آڈیو کے اختتام پرسابق چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ، ”کل جو کچھ ہوا آزاد جموں و کشمیرمیں اس کے بعد تو کوئی ۔۔۔۔“، جواب میں خواجہ طارق نے کہا ہم صرف 3 ممبر بینچ کے حکم کا انتظارکررہے ہیں، مزید گھنٹہ آدھا گھنٹہ لگ سکتا ہے اور اس کے بعد ہم توہین عدالت کیس فائل کررہے ہیں۔
خواجہ طارق کے جواب میں ثاقب نثار کہتے ہیں، “ چلو ٹھیک ہے، شکریہ سر شکریہ“۔
یہ واضح نہیں ہے کہ لیک ہونے والی بات چیت میں کون سے کیس پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے، لیکن ”جب تک یہ ایک عمل نہیں بن جاتا“ کا حوالہ یہ ظاہرکرتا ہے کہ قانونی برادری کے دو ارکان سپریم کورٹ پریکٹسز اینڈ پروسیجر بل 2023 پر تبادلہ خیال کررہے ہیں۔
رواں ماہ کے اوائل میں پارلیمنٹ نے اس بل کو دو بارہ منظور کیا تھا تاہم سپریم کورٹ کے8 رکنی بنچ نے اس کے خلاف ایک حکم جاری کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ جیسے ہی یہ قانون بنا اسے معطل کردیا جائے گا۔
بل پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد صدرمملکت کو دوبارہ بھجوائے جانے کے باوجود انہوں نے اس پر دستخط نہیں کیے تھے جس پر 10 روز کی مدت گزرنے پر یہ از خود قانون بن گیا تھا۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کے قانون بننے سے چیف جسٹس کا ازخود نوٹس کا اختیار محدود ہوگا، سو موٹو کا اختیار چیف جسٹس اور اعلیٰ عدلیہ کے 2 سینئر ترین ججز کے پاس ہوگا