پاکستان میں انتخابات کے حوالے سے پیدا ہونے والا سیاسی بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے، اپوزیشن اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اپنا پورا زور پنجاب الیکشن پر لگا رہی ہے تو حکومتی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) پورے ملک میں ایک ہی دن الیکشن کیلئے کوشاں ہے۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود انتخابات کا یہ اونٹ فی الحال کسی کروٹ بیٹھتا دکھائی نہیں دے رہا۔
ایک جانب عدالتِ عظمیٰ کا حکم اور پی ٹی آئی کا مطالبہ ہے کہ پنجاب میں فوری الیکشن ہوں تو دوسری جانب حکومتی اتحاد نے پارلیمنٹ کے ذریعے الیکشن سے واضح انکار کردیا ہے۔
ساتھ ہی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے یہ بھی عذر دیا ہے کہ 14 مئی کو انتخابات کیلئے ادارے پوری طرح تیار نہیں ہیں۔
عمران خان متعدد مواقع پر واضح کرچکے ہیں کہ مذاکرات کا محور انتخابات کا 90 دن میں ہونا ہے، جبکہ حکومتی اتحاد باالخصوص مسلم لیگ (ن) بضد ہیں کہ الیکشن ایک ساتھ اکتوبر میں ہوں۔
ایسے میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے ”سیاسی فریقین“ کے درمیان مذاکرات کا بیڑہ اٹھایا، انہوں نے پی ٹی آئی کے چئیرمین عمران خان اور وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی اور مثبت اشاروں کی نوید سنائی۔
بدھ کو سپریم کورٹ میں بھی دوران سماعت اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ’سیاسی جماعتیں مذاکرات پر آمادہ ہو رہی ہیں اور عدالت کچھ مہلت دے تو معاملہ سلجھ سکتا ہے۔‘
جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ’سیاسی جماعتیں ایک مؤقف پر آجائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے۔‘
حکومت کے اہم اتحادی اور پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف زرداری بھی مذاکرات کے ذریعے بحران کا حل نکالنے کے حامی ہیں اور گذشتہ چند دنوں کے دوران پیپلز پارٹی کا وفد مختلف جماعتوں سے مل چکا ہے۔ لیکن پی ڈی ایم میں مذاکرات پر واضح اختلاف رائے موجود ہے۔
مذاکرات کا یہ سلسلہ کسی نتیجہ خیز حل کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا، کیونکہ جمیعت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان عمران خان سے مذاکرات کے خلاف ہیں۔
پی ٹی آئی سے مذاکرات نہ کرنے کے مؤقف پر قائم جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ہم عمران خان سےمذاکرات کے فلسفے اور دلیل کو نہیں مانتے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ نے تمام جماعتوں کے قائدین کو 26 اپریل کو سر جوڑنے کا موقع دیا ہے اور کسی نتیجے پر پہنچنے کا کہا ہے۔
دونوں فریقین نے مذاکرات کیلئے کمیٹیاں قائم کردی ہیں، عمران خان اور وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقاتوں کا حصہ رہے جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ نے بی بی سی گفتگو میں کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ کچھ قدم عمران خان آگے بڑھیں اور کچھ اتحادی حکومت اور انتخابات کی کسی ایسی تاریخ پر اتفاق رائے ہو جائے جس پر دونوں کا اتفاق ہو۔‘
لیکن فی الحال حکومتی اتحاد کو انتخابات ہوتے نظر نہیں آرہے، اور ایسا لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی بھی مذاکرات کا دم گھٹتا پارہی ہے۔ کیونکہ پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے آج نیوز سے گفتگو میں کہا ہے کہ مذاکرات اس ماحول میں نہیں ہو سکتے، موجودہ صورتحال میں انارکی پھیلنے کا خدشہ ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی نے ملک میں ایک ہی دن انتخابات کرانے کے لئے 25 اپریل کو سندھ بھر میں احتجاج کا اعلان کردیا ہے۔
اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے رہنما منظور وسان کا کہنا ہے کہ ہم الیکشن کے لئے تیار ہیں اکتوبر میں نہیں تو اگست میں الیکشن ہوجائے۔
لیکن وفاقی وزیر توانائی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما خرم دستگیر کا کہنا ہے ضروری ہے الیکشن سے پہلے ہم سب اس بات متفق ہوں کہ ہم سب کو الیکشن کے نتائج قبول ہوں۔
ایک طرف جہاں جماعت اسلامی مذاکرات کے زریعے فریقین کو کسی بیچ کے راستے پر لانے کیلئے کوشش کر رہی ہے تو دوسری جانب اس کا اپنا مؤقف ہے کہ انتخابات پورے ملک میں ایک ہی دن ہوں۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ وفاق اور صوبوں میں ایک ساتھ الیکشن کرائے جائیں، 14 مئی کو الیکشن کے فیصلے سے انتشار پیدا ہوگا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ صرف پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کوئی قبول نہیں کرے گا، الیکشن کسی ایک پارٹی لیڈر کے کہنے پر نہیں ہوگا، تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنا پڑے گا۔