بھارت میں مسلمانوں کو رمضان المبارک میں زیادہ مسائل کا سامنا ہے، اور انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے پرتشدد واقعات میں بھی روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔
مودی کے بھارت میں انتہاپسند ہندوؤں نے اقلیتوں کی زندگی اجیرن کردی ہے، بالخصوص ان شرپسندوں کو آسان اور پسندیدہ ہدف مسلمان ہیں، اور اس سے بھی زیادہ کم ظرف بھارتی عدالتیں اور پولیس دکھارہی ہیں، اور تمام ادارے اقلیتوں کے حقوق پر آواز اٹھانے کے بجائے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
بھارت میں جہاں 11 ماہ 24 گھنٹے مسلمانوں کے لئے آزادی سے سانس لینا محال ہے وہیں رمضان المبارک میں مسلمانوں کی زندگی مزید تنگ کردی گئی ہے، اور آئے روز مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اور پولیس کی موجودگی میں نمازیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ماہ رمضان المبارک کے دوران مسلمانوں کو نماز سے روکنے کے کل 31 واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔
ہندوانتہا پسندوں نے 4 اپریل کو ریاست اُتر کھنڈ کے شہر ہلدوانی میں مسلمانوں کو نماز تراویح سے روک دیا اور تراویح کے دوران تشدد پسند تنظیم بجرنگ دل کے 60 سے زائد غنڈوں نے مسجد پر دھاوا بول دیا، لیکن موقع پر موجود بھارتی پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔
مسلمانوں کی جانب سے عدالت میں مقدمہ درج کیا گیا، لیکن حسب روایت انہیں انصاف نہ ملا اور علاقہ مجسٹریٹ نے مسجد کے آدھے حصے کو ہی سِیل کر ڈالا۔
24 مارچ کو بجرنگ دل کے غنڈوں نے مُراد آباد میں مسلمانوں کو نماز تراویح سے روک دیا تھا۔ 31 مارچ کو بہار کے مدرسہ عزیزیہ کو ہندو مذہبی تہوار کے دوران نذرِ آتش کر دیا گیا تھا۔ یکم اپریل کو حیدر آباد میں ہندو انتہا پسندوں نے نماز تراویح کے دوران دنگا فساد کیا اور نمازیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق انتہا پسند ہندو تہواروں کو مسلمانوں کے خلاف تشدد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت میں مسلمان مخالف اقدامات اور تشدد میں سنگین اضافہ ہوا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا نوٹس لیں گی۔