وفاقی وزیرقانون اعظم نذیرتارڑنے انکشاف کیا ہے کہ سپریم کورٹ میں تعیناتی سے متعلق دو جونیئرججزکے حق میں ووٹ اس لیے دیا تھا کیونکہ عسکری قیادت نے حکومت سے کہا تھا چیف جسٹس کے نامزد جج قبول کر لیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ جونیئر ججز کی سپریم کورٹ میں تعیناتی روکنے کے حوالے سے فیصلہ وکلاء کی مشاورت سے کیا تھا، بعد میں انہی ججوں کی تعیناتی کے حق میں ووٹ حکومت کے کہنے پردیا، اس حوالے سے جنرل باجوہ بھی آن بورڈ تھے۔
جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں شریک وفاقی وزیرکا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں حکومت اور عسکری قیادت کے درمیان کیا بات چیت ہوئی؟ اس کا جواب اعلیٰ قیادتیں ہی دے سکتی ہیں، میں اس بات چیت کا حصہ نہیں تھا، تعیناتی کے پیچھے جنرل باجوہ ہی تھے۔
انہوں نے کہا کہ بارایسوسی ایشنزنےجونیئرججز کی تعیناتی کیخلاف جو مؤقف اپنایا تھا وہ درست تھا اور میں خود بھی اس مؤقف کا حامی تھا۔ حکومت نے مجھے اوراٹارنی جنرل کو کہا کہ چیف جسٹس جن ججز کو سپریم کورٹ لانا چاہتے ہیں ان کے حق میں ووٹ دے دیں تو ہم نے دے دیا ۔
وزیرقانون کے مطابق مطابق جنرل باجوہ نے اس وقت جو گارنٹی دی تھی کہ تناؤکم کرنے کیلئے یہ معاملہ سلجھائیں،میں اس کے خلاف تھا اورمزاحمت بھی کی مگرمیری قیادت نے مجھے حکم دیاکہ چیف جسٹس عمرعطا بندیال کےمجوزہ ناموں کو ووٹ دوں، میں نے استعفیٰ بھی دیا تھا۔ووٹ اعظم نذیرتارڑکا ہوتا تو ان ججز کیخلاف ووٹ دیتا مگرحکومت کا فیصلہ ماننا پڑا۔ جوڈیشل کمیشن کو بٹھا کر تعیناتی کا معیارایک ہی بارطےکرلیناچاہیئے ۔
انہوں نے کہا کہ ججزکے معاملے پر جولائی سے اداروں کے درمیان تناؤ کی کیفیت چل رہی تھی ۔ سپریم کورٹ کا اصل فیصلہ 4/3 کا ہی ہے اور اسی پر عمل ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کو بھی پتا تھا کہ فنڈز اسٹیٹ بینک نے نہیں دینے بلکہ بعد میں پارلیمنٹ سے ہی منظوری لینا ہوگی، عدالت اور پارلیمنٹ آمنے سامنے نہیں ہیں، فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز کا کسٹوڈین پارلیمان ہے۔
وفاقی وزیر قانون کے مطابق ہر ادارے کو چاہیے کہ آئینی حدود میں رہ کر کام کرے۔ فواد چوہدری چھوٹے بھائی ہیں لیکن انکی زبان ذرا زیادہ دراز ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کچھ چیزیں دیوار پرلکھی ہوتی ہیں، جس طرح سے سارے کیس کو ڈیل کیا گیا اور جو پہلے چار جج صاحبان کے فیصلے کی جس طرح سے بے توقیری کی گئی، اقلیتی فیصلے کو آرڈر آف کورٹ کے طور پر جاری کیاگیا،میں نے تو20 منٹ کے اندر اندر یہ رائے دی تھی اور لوگ اس پر ہنسے تھے۔