داسو ڈیم پر کام کرنے والا ایک چینی انجینئر مزدوروں کی جانب سے توہین مذہب کے الزامات عائد کئے جانے کے بعد اب پولیس کی حفاظت میں ہے۔
ڈیم پر تعینات ایک پولیس اہلکار محمد نذیر نے اے ایف پی کو بتایا کہ ”چینی شہری کو احتیاطی تدابیر کے طور پر محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا ہے۔“
خبر رساں ادارے روئٹرز نے پولیس افسر نصیر الدین خان کے حوالے سے کہا کہ ”اہلکاروں نے اس شخص پر حملے کے خوف سے اسے فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے دوسرے ضلع میں منتقل کر دیا تھا۔“
واضح رہے کہ مسلم اکثریتی ملک پاکستان میں توہین مذہب ایک انتہائی حساس مسئلہ ہے، جہاں توہین آمیز جملوں کی افواہیں بھی پُرہجوم اور مہلک تشدد کو بھڑکا سکتی ہیں۔
حکام نے بتایا کہ شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ میں داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے انجینئر پر توہین مذہب کا الزام رمضان کے مقدس مہینے میں ”کام کی سست رفتار“ کو اجاگر کرنے پر لگایا گیا۔
پاکستان میں مسلمان رمضان میں تقریباً 14 گھنٹے روزہ رکھتے ہیں اور اس دوران کچھ بھی کھاتے پیتے نہیں ہیں۔
ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ، ”مزدوروں نے کہا وہ روزے سے ہیں لیکن انہوں نے اس بات سے انکار کیا کہ کام سست روی کا شکار تھا، جس کے باعث سپروائزر کے ساتھ تلخ الفاظ کا تبادلہ ہوا۔“
انہوں نے کہا کہ ”بعد میں، مزدوروں نے انجینئر پر توہین آمیز ریمارکس دینے کا الزام لگایا“ اور تقریباً 400 مقامی لوگ احتجاج کرنے کے لیے جمع ہو گئے۔
پولیس میں درج ایک تحریری شکایت میں چینی شہری کی شناخت ایک ہیوی ٹرانسپورٹ سپروائزر کے طور پر ”مسٹر تیان“ کے نام سے کی گئی ہے، اور کہا گیا ہے کہ ہفتے کے روز ان کے ریمارکس نے ”تناؤ کو جنم دیا“۔
اسلام آباد میں چینی سفارت خانے نے تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
داسو دارالحکومت اسلام آباد سے تقریباً 180 کلومیٹر (110 میل) شمال میں واقع ہے۔ جہاں ایک مقامی انتظامیہ کے اہلکار نے بتایا کہ فوج اور نیم فوجی دستوں کو ”انجینئروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے“ تعینات کیا گیا تھا۔
داسو ڈیم کی تعمیر کا ٹھیکہ چائنا گیزوبا گروپ کمپنی کو 2017 میں دیا گیا تھا اور اس منصوبے پر سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔
یہ ان متعدد چینی فرموں میں سے ایک ہے جنہوں نے چینی شہریوں کو درپیش خطرات کے باوجود پاکستان میں انفراسٹرکچر کے منافع بخش معاہدے کیے ہیں۔
پاکستان میں توہین مذہب کی سزا موت ہے، حالانکہ اس جرم کے لیے کبھی کسی کو پھانسی نہیں دی گئی۔
پولیس اہلکار نذیر نے کہا کہ داسو میں چینی شہری کے خلاف ”باقاعدہ پولیس کارروائی“ ابھی شروع نہیں ہوئی ہے ”کیونکہ حکام اس مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں“۔
ایک اور پولیس اہلکار نے کہا کہ ”مقامی علماء اور گاؤں کے بزرگ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کارکنوں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں“۔
دسمبر 2021 میں، سیالکوٹ میں سری لنکا کے ایک فیکٹری مینیجر کو ایک ہجوم نے تشدد کرنے کے بعد زندہ جلا دیا تھا ہجوم نے اس پر بھی توہین مذہب کا الزام لگایا تھا۔