کار حادثے میں جاں بحق جمیعت علماء اسلام (ف) کے رہنما اوروفاقی وزیر برائے مذہبی امور مفتی عبدالشکور اپنی جماعت میں بہت اہمیت کے حامل تھے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مذہبی امور جیسی اہم وزارت پر مولانا فضل الرحمان نے انہیں وزیر بنوایا۔
مولانا فضل الرحمان کے انتہائی قریب ہونے کی وجہ سے اکثر حکومتی سطح پر مذاکرات اور بات چیت میں بھی انہیں اہمیت حاصل ہوتی تھی۔
مفتی عبد الشکور نے پارلیمانی سیاست کا آغاز دس برس قبل 2013 میں فاٹا سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ کر کیا تھا، لیکن کامیابی حاصل نہیں کرسکے تھے۔
اس کے بعد انہوں نے 2018 میں فاٹا سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 51 سے متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔
مفتی عبدالشکور کا تعلق لکی مروت کے گاؤں تاجبی خیل سے تھا۔ انہوں نے فلسفے اور اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹرز کیا اور مختلف مدارس میں فقۂ بھی پڑھاتے رہے۔
وہ پشاور میں ایک مسجد کے باقاعدہ خطیب بھی تھے اور اسی مسجد سے ملحقہ مدرسہ میں طلبہ کو پڑھاتے بھی تھے، لیکن وفاقی وزارت ملنے کے بعد انہوں نے مدرسہ میں تعلیم دینے کا سلسلہ مؤخر کر دیا تھا۔
وہ جے یو آئی (ف) فاٹا کے امیر تھے اور گزشتہ سال اپریل میں حکومت تبدیل ہونے کے بعد انہیں وفاقی وزیر برائے مذہبی امور کا قلم دان دیا گیا تھا۔
ان کا انتخابی علاقہ ایف آر لکی مروت، ایف آر ٹانک، ایف آر ڈیرہ اسماعیل خان، ایف آر بنوں، ایف آر کوہاٹ اور ایف آر پشاور پر وسیع وعریض علاقے پر مشتمل تھا۔
آپ اپنی قابلیت کی بنیاد پر کئی سالوں بلکہ عرصہ دراز سے کل قبائل یعنی فاٹا کے متفقہ امیر تھے۔
بعض سیاسی مبصرین ان کی وزارت میں کارکردگی دیگر وزرا کے مقابلہ بہتر سمجھتے تھے، کیوں کہ گزشتہ برس حج کے اخراجات میں اگرچہ اضافہ ہوا تھا تاہم انہوں نے سعودی حکام سے مذاکرات اور مشاورت کے ذریعے حاجیوں کے لیے کئی مراعات حاصل کیں اور پانچ ارب روپے سے زائد رقم بھی حاجیوں کو واپس کرائی۔
رواں سال بھی وہ حج اخراجات کم کرنے کی کوشش کررہے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ سعودی حکام سے اخراجات کم کرانے کے باوجود بھی روپے کی تنزلی کی وجہ سے اخراجات بڑھے ہیں، جس پر وہ مجبور ہیں۔ ان دنوں بھی وہ حج کی تیاریوں کی وجہ سے مصروف تھے اور ان کا زیادہ وقت وزارت کے دفتر میں ہی گزرتا تھا۔
مفتی عبدالشکور نے پسماندگان میں ایک بیٹا اور دو بیوہ چھوڑی ہیں۔
مفتی عبدالشکور کی کار حادثے میں وفات کے بعد سوشل میڈیا پر بعض ایسے بیانات بھی سامنے آئے ہیں جن میں ان کی طرف سے قومی اسمبلی میں قانون سازی کے لیے بھجوائے جانے والے بل کا تذکرہ ہے۔
تحفظِ ناموس صحابہ بل رواں سال جنوری میں قومی اسمبلی میں منظور کیا گیا تھا، جس کے مطابق صحابہ کی توہین کرنے پر موجودہ تین سے پانچ سال سزا کو کم از کم سزا 10 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔
بل کے مطابق اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ توہین کرنے والے نے کون سے الفاظ استعمال کیے، الفاظ شدید توہین کے زمرے میں آئے تو سزا عمر قید بھی ہوسکتی ہے۔
اس بل کے حوالے سے بعض افراد کی طرف سے کہا جا رہا تھا کہ اس بل کو ایک مخصوص مذہبی فرقے کو ٹارگٹ کرنے کے لیے بنایا جا رہا ہے۔ تاہم وزارت مذہبی امور کی طرف سے ایسی کسی بھی اطلاع کی تردید کی گئی تھی۔