لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے 3 مختلف مقدمات میں سابق وزیراعظم عمران خان کی ویڈیولنک کے ذریعے حاضری کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
انسداد دہشت گردی عدالت میں عمران خان کے خلاف 3 مختلف مقدمات میں عبوری ضمانت کی درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ عدالتی طلبی پر ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل عبدالجبار ڈوگر پیش ہوئے۔
مزید پڑھیں: عمران خان کی عدالت طلبی کے بعد 3 مقدمات میں عبوری ضمانت منظور
عدالت نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ حالات ایسے ہوں تو ویڈیو لنک پر حاضری ہو سکتی ہے، آپ کو کیا اعتراض ہے؟۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نےکہا کہ مجھے 10 سے 15 منٹ دے دیں، میں عدالت کی معاونت کردیتا ہوں، سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف کوئی حوالہ ملا توپیش کروں گا۔
مزید پڑھیں: عمران خان کی ضرورت سے زیادہ حاضری سے استثنیٰ کی درخواستیں آرہی ہیں، جج
عدالت نے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سے سوال کیا کہ کیا خطرے کا لیول وہی ہے جو عمران خان کے وکیل بتا رہے ہیں۔
جس پر ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نےکہا کہ پولیس فائل کے مطابق عمران خان کو کوئی خطرہ نہیں۔
مزید پڑھیں: عمران خان کو پارٹی چیئرمین کےعہدے سے ہٹانے کی درخواست دوسرے بینچ منتقل
جج کا کہنا تھا کہ تو آپ کہہ رہے ہیں کہ تھریٹ لیول ایسا نہیں جس کا دوسرے فریق نے اظہارکیا؟ اس پر پراسیکیوٹر نےکہا کہ جی میرے علم کے مطابق ایسا نہیں ہے۔
عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ ہمارے پاس پوری معلومات ہیں، تاریخ کو دہرانےکا موقع نہیں دینا چاہیے، بینظیر بھٹو کا واقعہ سامنے ہے۔
جج کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس قتل کے ملزمان آتے ہیں، ان کو اس سے بھی زیادہ خطرات ہوتے ہیں، آپ کی سکیورٹی نے تو مبینہ طور پر لوکل پولیس پر بھی ہتھیار سیدھے کرلیے تھے، عمران خان زندگی کا حق انجوائے کرنا چاہتے ہیں تو آزادانہ پھرنے کے حق پر سمجھوتہ کرلیں۔
وکیل نے کہا کہ عمران خان کو گولیاں لگی تھیں۔
عدالت کے استفسار پر سرکاری وکیل نے بتایا کہ عمران خان کا ایم ایل سی بنا تو ہے لیکن یہ وزیر آباد سے بنا ہونا چاہیئے تھا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ شامل تفتیش ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ایک بیان ریکارڈ کروا دیا تو ختم، شامل تفتیش ہونے کا مطلب ہے کہ جب پولیس طلب کرے پیش ہونا لازم ہے۔
عدالت نے عمران خان کی ویڈیو لنک کے ذریعے حاضری کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔