Aaj Logo

اپ ڈیٹ 13 اپريل 2023 01:49pm

چیف جسٹس اختیارات بل کیس: سیاسی جماعتوں، سپریم کورٹ بار اور پاکستان بار کو نوٹس جاری

سپریم کورٹ میں ’پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 ’ کیخلاف دائردرخواستوں پر پاکستان بارکونسل، سپریم کورٹ بار اور سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کر دیئے گئے۔

چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں گزشتہ روز تشکیل دیا جانے والا 8 رکنی لارجر بینچ نے ’پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 ’ کیخلاف دائردرخواستوں پر سماعت کی۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تشکیل دیے جانے والے اس لارجربینچ میں ان کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر،جسٹس سید مظاہرعلی نقوی، جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس عائشہ ملک، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔

درخواست گزار کے وکیل کے دلائل

سماعت کے آغاز پردرخواست گزار راجا عامر کے وکیل امتیازصدیقی نے اپنے دلائل میں کہا کہ موجودہ حالات میں یہ مقدمہ بہت اہمیت کاحامل ہے،قاسم سوری کیس کےبعد سیاسی تفریق میں اضافہ ہوا۔وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کرانے پرآمادہ نہ ہونے پر عدالت کو ازخودنوٹس لینا پڑا۔

امتیاز صدیقی نے کہا کہ عدالت نے 3 اپریل کو الیکشن کمیشن کوانتخابات کرانےکاحکم دیا۔آئین پرعمل کرنےکےعدالتی حکم کےبعدمسائل زیادہ پیداکئےگئے۔ عدالت اور ججزپر ذاتی تنقید کی گئی جس کے ذمہ دار حکومتی وزرا اور ارکان پارلیمنٹ ہیں۔

درخواست گزار کے وکیل نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ مجوزہ قانون سازی سےعدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی گئی۔ صدرنےاعتراضات عائد کرکےبل اسمبلی کو واپس بھیجا مگرسیاسی اختلاف پرصدر کے اعتراضات کا جائزہ نہیں لیا گیا۔ اب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظوری کے بعد یہ بل 10روز قانون بن جائےگا جبکہ آرٹیکل 191کے تحت سپریم کورٹ اپنے رولزخود بناتی ہے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ بل کے تحت ازخود نوٹس بینچز کی تشکیل کا فیصلہ 3 رکنی کمیٹی کرے گی، بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ بل قانون بننے کے لائق بھی ہے، کابینہ کی جانب سے بل کی توثیق کرنا غیر قانونی ہے، بل کابینہ میں پیش کرنا، منظوری دونوں انتظامی امور ہیں، بل کو اسمبلی میں پیش کرنا منظوری لینا بھی غیرآئینی ہے۔

وکیل امتیاز صدیقی نے مؤقف پیش کیا کہ بل زیر التواء نہیں بلکہ مجوزہ ایکٹ ہے، صدر منظوری دیں یا نہ دیں ایکٹ قانون کاحصہ بن جائے گا، چیف جسٹس کے بغیرسپریم کورٹ کا کوئی وجود نہیں، ان کی تعیناتی سے ہی سپریم کورٹ مکمل ہوتی ہے، چیف جسٹس کے بغیر دیگر ججز موجود ہوں بھی توعدالت مکمل نہیں۔

وکیل نے اپنے دلائل میں کہا ہے کہ چیف جسٹس، ججز کے اختیارات کم نہیں کئے جا سکتے،چیف جسٹس کا آفس کوئی اور جج استعمال نہیں کرسکتا، تو ان کا دفتر 2 سینئر ججز کے ساتھ کیسے شئیر کیا جا سکتا ہے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادی پرسپریم کورٹ کئی فیصلے دے چکی ہے، ریاست کے ہر ادارے کے اقدامات کا سپریم کورٹ جائزہ لے سکتی ہے، قاسم سوری کیس میں پارلیمنٹ کے اقدامات کا جائزہ لینے کا فیصلہ ہوا، عدالت قرار دے چکی کہ بل کو پاس ہونے سے نہیں روکا جا سکتا، بل پاس ہوجائے تو عدالت اس کا جائزہ لے سکتی ہے، صدر کی منظوری سے پہلے بھی مجوزہ ایکٹ کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

وکیل امتیاز صدیقی نے مزید کہا کہ عدالت آئین کی محافظ اور انصاف کرنے کیلئے با اختیار ہے، تمام ادارے سپریم کورٹ کے احکامات ماننے کے پابند ہیں، سپریم کورٹ کے رولز موجود ہیں، پارلیمنٹ ترمیم نہیں کرسکتی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے مطابق عدلیہ کی آزادی بنیادی حق ہے، پارلیمنٹ، ایگزیکٹو کی طرح عدلیہ کو بھی آئینی تحفظ حاصل ہے۔

درخواست پر سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی

سپریم کورٹ نے درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی کے دلائل سننے کے بعد پاکستان بارکونسل، سپریم کورٹ بار، اور سیاسی جماعتوں کو وٹس جاری کر دیئے، جب کہ اٹارنی جنرل کو معاونت کی ہدایت جاری کرتے ہوئے درخواست کی سماعت غیرمعینہ مدت کے لئے ملتوی کردی۔

چیف جسٹس کے ریمارکس

درخواست پر سماعت ملتوی کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ کی آزادی کا معاملہ اہم ہے، کیس پر جلد حکم جاری کیا جائے گا، اور کیس کو جلد دوبارہ سماعت کیلئے مقرر کیا جائے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ کا بہت احترام ہے، جائزہ لینا ہے کہ کہیں آئین کی خلاف ورزی تونہیں ہوئی۔

پاکستان بار کونسل کا عدالتی بائیکاٹ

اس سے قبل بل کی حمایت اور اس کیخلاف درخواستوں کی سماعت کیخلاف پاکستان بارکونسل نے آج ملک بھرمیں عدالتی بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔

چیف جسٹس کے اختیارات کم کرنے سے متعلق قانون سازی کے معاملے پر یہ بل ترامیم کے بعد 10 اپریل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کثرت رائے سے منظور کیا گیا تھا جس کے تحت ازخود نوٹس اور بینچوں کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس سے لے کر3 رکنی کمیٹی کو دیا گیا ہے۔

بینچ کی تشکیل کیلئے روسٹر رجسٹرار عشرت علی کے دستخط سے جاری ہوا جنہیں ہٹانے کے احکامات وفاقی کابینہ نے اپریل کے آغاز میں جاری کیے تھے تاہم وہ چیف جسٹس کی ہدایت پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس بل کیخلاف سپریم کورٹ میں 4 درخواستیں دائرکی گئی ہیں جن میں سے 2 وکلاء اور 2 عام شہریوں کی جانب سے ہیں، درخواستوں میں پارلیمنٹ سے منظورترمیمی ایکٹ کو کالعدم قراردینے کی استدعا کی گئی ہے۔ کاز لسٹ کے مطابق کیس کی سماعت کا آغاز آج ساڑھے 11 بجے ہوگا۔

درخواستوں میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ، ’پارلیمان کو سپریم کورٹ کے معاملات میں مداخلت کا آئینی اختیارحاصل نہیں ہے، سپریم کورٹ کے رولز 1980 میں بنے تھے جبکہ آرٹیکل 184/3 کے تحت اپیل کا حق نہیں دیا گیا تو اس لحاظ سے ایکٹ کے تحت بھی حق نہیں دیا جا سکتا‘۔

پارلیمان سے منظوری کے اگلے ہی روز عدالتی اصلاحات سے متعلق یہ بل صدر مملکت کو دوبارہ بھجوا دیا گیا تھا جنہوں نےبل پر ستخط کیے بغیراسے آئین کے آرٹیئکل نظرِثانی کے لیے واپس پارلیمنٹ بھجوا رکھا تھا۔

صدر نے 10 روزمیں دستخط نہ کیے تو بل ازخود قانون بن جائے گا

صدر کا کہنا تھا کہ پارلیمٹ اس بل پر از سر نو غور کرے، مسودہ بل بادی النظر میں پارلیمٹ کے دائرہ اختیارسے باہرہے، بل قانونی طورپر مصنوعی اور ناکافی ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے جانچ شدہ قواعد میں چھیڑ چھاڑ عدالت کی اندرونی کاروائی، خود مختاری اورآزادی میں مداخلت کے مترادف ہوسکتی ہے، آرٹیکل 67 پارلیمان اور آرٹیکل 191 سپریم کورٹ تحفظ فراہم کرتا ہے یہ آرٹیکل دونوں اداروں کواختیارمیں مداخلت سے منع کرتے ہیں۔

دوبارہ بھجوائے جانے کے بعد اگر10 روز کے اندر صدر عارف علوی نے اس بل پردستخط نہ کیے تو یہ از خود قانون بن جائے گا۔

پاکستان بار کونسل کا عدالتی بائیکاٹ

پاکستان بار کونسل کے وائس چئیرمین ہارون الرشید اور چئیرمین ایگزیکٹو کمیٹی حسن رضاپاشا نے سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ پریکٹس بل 2023 سے متعلق قانون نافذالعمل ہونے سے پہلے ہی لارجربینچ کی تشکیل اور درخواستوں کو عجلت میں سماعت کیلئے مقررکرنے کا اقدام افسوسناک قراردیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔

سیکریٹری پاکستان بارکونسل کےمطابق، ’اس غیرمنصفانہ اقدام کیخلاف ملک بھرکے وکلا جمعرات 13 اپریل کو عدالتوں کا بائیکاٹ کریں گے اور بارکونسلز اور ایسوسی ایشنز کے مطالبے پر کی گئی اس قانون سازی کو نافذ العمل ہونے سے پہلے روکنے کی بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔‘

Read Comments