کینیڈا کے شہرمارکھم میں مسجد کے احاطے میں گاڑی سے نمازی کو کچلنے کی کوشش کرنے والا بھارتی انتہا پسند نکلا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ٹورنٹو کی ایک مسجد میں مشتبہ نفرت انگیز واقعے کے بعد ایک شخص کو حراست میں لیا گیا ہےجس نے مبینہ طور پر مسجد میں ایک نمازی کی طرف گاڑی چڑھائی، دھمکیاں دیں، اور نسلی گالیاں دیں۔
یارک ریجنل پولیس کی طرف سے جاری کردہ ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ٹورنٹو کے رہائشی 28 سالہ شرن کروناکرن کو جمعہ کی آدھی رات کے فوراً بعد گرفتار کیا گیا تھا۔
کروناکرن پر تین الزامات عائد کیے گئے ہیں جن میں دھمکیاں دینا، ہتھیار سے حملہ کرنا اور خطرناک ڈرائیونگ شامل ہیں۔
تاہم فی الحال عدالت میں یہ الزامات ثابت نہیں ہوئے،ملزم کی عدالت میں اگلی پیشی 11 اپریل کو ہوگی۔
وکیل منیزہ شیخ جن کا خاندان اسلامک سوسائٹی آف مارکھم میں جاتا ہے، کا کہنا ہے کہ عبادت گاہیں اب محفوظ نہیں ہیں۔
اسلامک سوسائٹی آف مارکھم کے صدر قیصر ناصر خان کے مطابق ٹورنٹو شہر سے تقریبا 30 کلومیٹر شمال میں واقع مسجد کے باہر ایک شخص نے“اسلاموفوبیا کی متعدد کارروائیاں“ کیں۔پولیس نے بتایا کہ ٹورنٹو کے ایک 28 سالہ شخص پر گزشتہ جمعرات کو مسجد میں ’نفرت پر مبنی مشتبہ واقعہ‘ کے الزام میں فرد جرم عائد کی گئی ہے۔
قیصر ناصر خان نے بتایا کہ مذکورہ شخص نے ہماری مسجد نذر آتش کرنے کی دھمکی دی، پیغمبراسلام سے متعلق توہین آمیز کلمات کہے اوراپنی گاڑی سے ہمارے ساتھیوں کو مارنے کی کوشش کی۔انہوں نے کہا کہ“چاہے کیوبیک سٹی کی مسجد میں ہونے والا قتل عام دیکھیں، یا لندن حملہ جہاں ایک شخص نے اپنے ٹرک کے ساتھ پورے خاندان کو کچل دیا، ہمارے پاس خوف محسوس کرنے کی وجوہات ہیں۔“
یاد رہے کہ 2017 میں مسلح شخص نے کیوبیک سٹی کی ایک مسجد میں چھ مسلمانوں کو قتل کر دیا تھا۔ 2020 میں ٹورنٹو کے علاقے میں ایک مسجد کی دیکھ بھال کرنے والا شخص بھی ہلاک ہوا تھا جبکہ جون 2021 میں اونٹاریو کے شہر لندن میں ایک شخص نے ایک مسلمان خاندان کے چار افراد کو اپنے ٹرک سے ٹکر مار دی تھی جس کے نتیجے میں چاروں بحق اور خاندان کا پانچواں رکن نوجوان لڑکا شدید زخمی ہو گیا تھا۔
موخر الذکر حملے نے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی حکومت کو اسلاموفوبیا پر ایک قومی سربراہی اجلاس منعقد کرنے پر مجبور کیا اور رواں سال جنوری میں کینیڈا نے اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے لئے اپنا پہلا خصوصی نمائندہ مقرر کیا۔
ٹروڈو نے کینیڈا کی نئی سفیر عامرہ الغوابی کا خیرمقدم کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا تھا کہ، ’ہمیں اسلاموفوبیا کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، ہمارے ملک میں کسی کو بھی اپنے عقیدے کی وجہ سے نفرت کا سامنا نہیں کرنا چاہئے۔‘
اونٹاریو میں حزب اختلاف کی جماعت نیو ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ نے بھی مارکھم میں مسلم کمیونٹی کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے تشدد اور اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنے کا عہد کیا۔
نیشنل کونسل آف کینیڈین مسلمانوں کی وکالت کرنے والے گروپ نے بھی رمضان کا حوالہ دیتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ “یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ ہماری کمیونٹی کو پرتشدد کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ مارکھم میں جو کچھ ہوا وہ اس سے بھی بدتر ہو سکتا تھا۔ لیکن نفرت کا مقابلہ متحدہ عزم کے ساتھ کیا جانا چاہئے۔’