حکومت نے سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ ریگولیشنز بل 2023 پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کروالیا۔
اسپیکرقومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی زیرصدارت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں وزیرقانون اعظم نزیر تارڑ نے سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ ریگولیشنز بل پیش کیا اور پارلیمان نے بل کو منظور کرلیا۔ ایوان میں اکثریت کے ووٹ سے بل پاس کیا گیا۔
واضح رہے کہ صدر مملکت عارف علوی نے سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ ریگولیشنز بل پر دستخط کیے بغیر پارلیمنٹ کو واپس بھجوا دیا تھا تاہم اب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظوری کے بعد بل کو دستخط کے لئے دوبارہ صدر مملکت کو بھجوایا جائے گا۔ اگر صدرعارف علوی نے دستخط نہیں کیے تو 10 دن بعد یہ بل خود ہی قانون بن جائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی بھرپور مخالفت کی اور بل کی کاپیاں پھاڑ دیں۔
حکومت نے جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق احمد کی ترمیم بھی مسترد کردی۔ مشتاق احمد نے سوموٹو کے خلاف اپیل کی مخالف کی۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی شخص کو بچانے کے لیے قانون سازی کی مخالفت کرتا ہوں، بنچ تشکیل دینے کا اختیار چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ رہنا چاہئے، یہ لوگ اپنی لیڈرشپ کو اس بل کے ذریعے ریلیف دینا چاہتے ہیں، ہمیں یہ منظور نہیں۔
سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ ریگولیشنز بل 2023 منظور ہونے کے بعد پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس 15 مئی کی شام 4 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
دوسری جانب مذکورہ بل کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے اور درخواست میں وزیراعظم، اسپیکر قومی اسمبلی اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کو شہری منیر احمد کی جانب سے ان کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے چیلنج کیا ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 آئین پاکستان کے خلاف ہے اور ایسا کوئی قانون نہیں بن سکتا جو آئین سے متصادم ہو۔
درخواست گزار کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ کے رولز بنے ہوئے ہیں لہٰذا آئین کے مطابق سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ قانون بدنتیی پر مبنی ہے۔
اظہر صدیق ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کو خلاف آئین قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے اور درخواست کے حتمی فیصلے تک اس قانون پر عملدرآمد سے حکومت کو روکا جائے۔
درخواست میں یہ بھی مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے پنجاب میں انتخابات کو التواء میں ڈالنے کے لیے موجودہ بل کو منظور کیا ہے۔