حالیہ مقدمے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل، سابق اٹارنی جنرل اور وفاقی کابینہ کا حصہ رہ چکے عرفان قادر کا سپریم کورٹ کے پنجاب انتخابات فیصلے کے خلاف قرارداد کے حوالے سے کہنا ہے کہ یہ پارلیمان کی آواز ہے، پارلیمان کا یہ احتجاج سڑکوں پر احتجاج سے بہتر ہے۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں گفتگو کرتے ہوئے عرفان قادر نے کہا کہ جس بینچ نے یہ فیصلہ دیا اس نے آئین کی توہین کی ہے، اس قانون کی توہین کی ہے جو پارلیمان نے بنایا، اس بینچ نے سپریم کورٹ کے ان ججز کی توہین کی ہے جنہوں نے کہا تھا کہ الیکشن کی تاریخ کا فیصلہ چار تین سے ہوچکا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کو اگر آپ میرٹ پر دیکھیں تو پہلے ایک تاریخ دی گئی جو صدر پاکستان نے دی، جبکہ صدر پاکستان تاریخ دے ہی نہیں سکتے تھے، اس کے بعد سپریم کورٹ نے احکامات جاری کردئے اور اس کے تحت صدر پاکستان نے پنجاب اسمبلی کی تاریخ دے دی، وہ بھی صدر پاکستان نہیں دے سکتے تھے۔ گورنر خیبرپختونخوا نے بھی یہ اسمبلی تحلیل نہیں کی تھی، سپریم کورٹ انہیں بھی کہہ رہا تھا کہ وہ تاریخ دیں، اور میں نے سپریم کورٹ کو بتا دیا تھا کہ ایک ہی صورت میں گورنر یا صدر تاریخ دیتے ہیں کہ اسمبلی کی تحلیل انہوں نے اپنی صوابدید پر کی ہو، صدر پاکستان بھی جب اسمبلی کی تحلیل اپنی صوابدید پر کرتے تھے تو وہ آرٹیکل 58 (2 بی) کے تحت دیا کرتے تھے، اب تو وہ آرٹیکل بھی ختم ہوگیا۔
عرفان قادر کے مطابق سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو صریحاً آئین کی بھی سمجھ نہیں آئی، قانون کی بھی سمجھ نہیں آئی، اور تمام خلاف ورزیاں کرکے انہوں نے ایک ایسا فیصلہ کیا جو کہ کالعدم ہے۔ ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی، اور سپریم کورٹ کے اپنے فیصلے ہیں کہ ایسے فیصلوں کو نظر انداز کردینا چاہئیے۔
دورانِ سماعت وکلاء کو نہ سنے جانے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بہت زیادتی ہے کہ تین دن تک جج صاحبان بولتے رہے، بلاوجہ بال کی کھال اتارتے رہے اور بڑے بڑے سینئیر وکلاء کو نہیں سنا۔ مجھے تو انہوں نے مہربانی فرما کر 25 منٹ یا آدھا گھنٹہ سن لیا۔ میں جب نوجوان تھا تو تین چار گھنٹے ججز سے مخاطب ہوتا تھا اور وہ میری بات بڑے آرام سے سنتے تھے، آج جبکہ میں ایک زندگی اس پیشے میں گزار چکا ہوں یہ میرے ساتھ ایسا برتاؤ کررہے تھے جیسے کہ میں ایک بھکاری ہوں اور ان سے بھیک مانگ رہا ہوں کہ مجھے سن لیں، اور جیسے کہ وہ لوگ بہت اعلیٰ منصب پر بیٹھے ہوئے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے فریڈم آف اسپیچ کی کوئی حیثیت نہیں ہے، سیاسی جماعتوں کے بنیادی حقوق نہیں ہیں، صرف ایک سیاسی جماعت کے بنیادی حقوق ہیں اور ہم انہیں ہی دیکھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ فاروق ایچ نائیک صاحب جو صدر پاکستان بھی رہ چکے ہیں ، چئیرمین سینیٹ بھی رہ چکے ہیں ، کیا تھا اگر آپ انہیں سن لیتے۔
عرفان قادر نے کہا کہ میں یہ ساری باتیں نہیں کرتا لیکن آج میں مجبور ہوگیا ہوں، کیونکہ اگر یہ باتیں نہ کی گئیں تو ساری عدلیہ اوور ریچ (حد سے تجاوز) کا شکار رہے گی اور فرد واحد سارے ادارے کی تفرید کردے گا۔
دس اپریل کو وزیراعظم اور پوری کابینہ کے کٹہرے میں کھڑے ہونے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، آرٹیکل 248 میں صاف طور پر لکھا ہے کہ کابینہ اور وزیراعظم اپنے فرائض منصبی میں کسی بھی عدالت کو جوابدہ نہیں ہیں۔‘ یوسف رضا گیلانی صاحب کے خلاف ایک غلط فیصلہ آیا تھا، میں اٹارنی جنرل تھا وہ فیصلہ تو میں نے بھی نہیں مانا تھا نہ گیلانی صاحب نے مانا تھا۔ گیلانی صاحب نے خود استعفا دیا تھا کیونکہ اس وقت ایک انتشار کی کیفیت پیدا کردی گئی تھی اور دنیا کو بتایا جارہا تھا کہ کوئی انسٹیٹیوشنل تصادم ہوا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم بالکل گھر نہیں جائیں گے‘۔
انتخابات نہ ہوئے تو کسی نہ کسی کو تو گھر جانا پڑے گا، وہ کون ہوگا؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’جتنا مس کنڈکٹ چیف جسٹس کرچکے ہیں، بہتر تو یہ ہوگا کہ وہ استعفا دے دیں، اگر انہوں نے استعفا نہ دیا تو مجھے افسوس سے کہنا یہ پڑ رہا ہے کہ مجھے لگ رہا ہے پھر چیف جسٹس صاحب کو غالباً گھر جانا پڑے گا۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 184(3) کے قانون میں ایسی کوئی شق نہیں جو سپریم کورٹ کو کمزور کرے، اس قانون سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ایک فرد واحد کے بجائے سپریم کورٹ کو مضبوط کر رہے ہیں، یہ سپریم کورٹ میں فرد واحد کی ڈکٹیٹر شپ کا قلع قمع کرنے کیلئے ہے ، اس لئے اسے کالعدم قرار نہیں دیا جاسکے گا۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شفقت محمود نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرارداد سے محاز آرائی مزید بڑھے گی، آج منظور ہونے والی قرارداد کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔
شفقت محمود نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو ماننا آئین میں لکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 97ء میں جو کچھ ہوا اس کی گونج آج تک سنائی دیتی ہے۔ 1997 جیسی صورتحال ہوئی تو بہت افسوسناک ہوگا۔ 97 واقعہ ایک بدنما داغ ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمیں فل کورٹ یا کسی بینچ سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ آئین کا آرٹیکل 224 بہت زیادہ واضح ہے، کوئی بھی آرٹیکل کے خلاف جانے کا تصور نہیں کرسکتا۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ہم صرف رائے دے سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کروانا تمام اداروں کا فرض ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا آئین اجازت دیتا ہے کہ الگ الگ الیکشن ہوں، تین اسمبلیاں مدت پوری کرنے جارہی ہیں، اس کے بعد اگر عمل ڈی ریل ہو تو اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہوگی جو تصادم کی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں۔