بلوچستان کے ضلع بارکھان میں صوبائی وزیر سردارعبدالرحمن کھیتران کی مبینہ نجی جیل میں قید فیملی کے معاملے میں کنویں سے برآمد ہونے والی لڑکوں کی لاشوں کے ڈی این اے کی رپورٹ آگئی، رپورٹ کے مطابق قتل ہونے والےدونوں لڑکے گراں ناز کے بیٹے تھے۔
لاہور لیبارٹری سے آنے والی رپورٹ کے مطابق دونوں لڑکے گراں ناز کے بیٹے ہیں جبکہ گراں نازنے ایک لاش کی شناخت پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ ان میں سے ایک اس کا بیٹا نہیں۔
21 فروری کو بلوچستان کے ضلع بارکھان کے علاقے حاجی کوٹ کے ایک کنویں سے دو مردوں اور خاتون کی لاشیں برآمد ہوئی تھین جنہیں سر میں گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا۔ تینوں مقتولین کے ہاتھ پاؤں رسیوں سے بندھے ہوئے تھے، آنکھوں پر پٹی باندھی گئی تھی، جبکہ خاتون کا چہرہ مسخ کیا ہوا تھا۔
ابتدائی طور پرمقتولین کی شناخت خان محمد مری کے اہلِ خانہ کے طور پر ہوئی جن کا دعویٰ ہے کہ وہ صوبائی وزیر تعمیرات و مواصلات سردار عبدالرحمان کھیتران کے سابق ملازم ہیں۔خان محمد مری اور لواحقین نے الزام عائد کیا تھا کہ مقتولین 2019 سے سردارعبدالرحمان کھیتران کی نجی جیل میں قید تھے اور کنویں سے ملنے والی لاشیں خان محمد مری کے دو بیٹوں محمد نواز، عبدالقادر اور اہلیہ گرا ناز کی ہیں۔
گرا ناز کی ایک ویڈیو کچھ عرصہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، جس میں ان کا ہاتھ میں قرآن پاک اٹھائے کہنا تھا کہ ’سردار عبدالرحمان کھیتران نے ہمیں قید کیا ہوا ہے۔ میری بیٹی کے ساتھ زیادتی کرتا ہے اور میرے بیٹوں کو بھی قید کیا ہوا ہے، ہمیں آزاد کرایا جائے۔‘
خان محمد مری کا دعویٰ تھا کہ ان کے گھرکے مزید پانچ افراداب بھی سردارعبدالرحمان کھیتران کی جیل میں قید ہیں۔
پوسٹ مارٹم کے بعد علم ہوا کہ کنویں سے ملنے والی لاش 16 سے 17 سالہ لڑکی کی ہے جبکہ خان محمد مری کی اہلیہ کی عمر 40 سال سے زائد ہے ۔مذکورہ لڑکی سے زیادتی کے شواہد بھی ملے ، رپورٹ کے مطابق تشدد کے بعد لڑکی کے سر پر 3 گولیاں ماری گئیں، پھر شناخت چھپانے کیلئے چہرے اور سرپرتیزاب ڈالا گیا۔
لاش کی شناخت نہ ہونے پراسے کوئٹہ میں امانتاً دفنا دیا گیا تھا تاہم بعد میں علم ہوا کہ لاوارث سمجھ کر دفنائی جانے والی لاش کھیتران قبیلے کی لڑکی کی ہے جس کی شناخت مبینہ طور پر امیراں بی بی کے نام سے ہوئی۔
لیویز فورس نے 22 مئی کو خاتون گراں ناز اور بچوں کو ڈیرہ بگٹی میں کارروائی کے دوران بازیاب کرایا جنہیں کوئٹہ منتقل کیا گیا۔جوڈیشل مجسٹریٹ کی ہدایت پر بچوں اور خاتون کے بیانات قلم بند کیے جانے کے بعد جسمانی معائنے اور ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کی ہدایت کی گئی۔
بعد ازاں بار خان محمد مری کی 17 سالہ بیٹی، 19 سالہ اور 13 سالہ بیٹوں سے زیادتی کی تصدیق ہوئی۔ گراں ناز نے ویڈیو پیغام میں کہا کہ میں 8 سال سے عبدا لرحمن کھیتران کی نجی جیل میں قید تھی، دوران قید ہمارے اوپر تشدد کیا گیا اور کمرے میں بند رکھا گیا۔میرے 6 بیٹے مجھ سے الگ کئے گئے۔
خان محمد مری کے بیٹے نے کہا کہ مجھے صوبائی وزیر سردار عبدالراحمن کیھتران نے کوئٹہ والے گھرمیں بند کیا تھا، دو سے تین دن پہلے ہمیں دکی میں کسی بندے کے حوالے کیا گیا، جب اس شخص کو پتا لگا کہ پولیس ہمیں ڈھونڈ رہی تو وہ ہمیں چھوڑ کر چلا گیا تھا جس کے بعد پولیس نے ہمیں بازیاب کیا۔
سردار عبدالرحمان کے بیٹے انعام شاہ نے تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ کنویں سے ملنے والی لاشیں ان کے سابق ملازم خان محمد مری کی اہلیہ اور بیٹوں کی ہیں۔
انعام کا کہناتھا کہ ان کے والد نے تین شادیاں کی ہیں اور وہ تینوں بیویوں کی اولادوں کو آپس میں لڑا رہے ہیں اور اپنے ہی بیٹوں کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ ’والد سے 2018 میں گاڑیوں کی ملکیت تبدیل کرانے پر تنازع پیدا ہوا تو انہوں نے میرے خلاف 2019 میں اپنے ہی گھر سے چوری کرنے کا جھوٹا مقدمہ درج کرایا اور خان محمد مری کو گواہ بنایا۔ جب خان محمد مری نے گواہی دینے سے انکار کیا تو ان کے بیوی بچوں کو قید کر لیا۔‘
دوسری جانب سردار عبدالرحمان کھیتران نے ان تمام الزامات کی تردید کی تھی۔
بارکھان واقعہ کے بعد پولیس نے صوبائی وزیر عبدالرحمان کیتھران کو گرفتار کیا، واقعہ کا مقدمہ ایس ایچ اوبارکھان فدا اللہ کی مدعیت میں درج کیا گیا۔ ایف آئی آر میں قتل، اقدام قتل اور دیگر (302 ، 201 اور 34) دفعات شامل کی گئیں۔
گرفتاری سے قبل صوبائی وزیرعبدالرحمان کیتھران نے خود پر لگے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر میری کوئی نجی جیل ہے تو تحقیقات کریں، میں نے خود وزیراعلٰی بلوچستان سے کہا ہے کہ جے آئی ٹی بنائیں، جو بھی تحقیقاتی کمیٹی بنی اس کے سامنے پیش ہوں گا، لیکن تحقیقات کیلئے میں کیوں استعفیٰ دوں۔
بارکھان میں پیش اۤنے والے افسوسناک واقعہ کے خلاف بلوچستان کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے۔ کوئٹہ میں لواحقین نے لاشوں کو رکھ کر دھرنا بھی دیا تھا تاہم انصاف کے حصول کی یقین دہانی کے بعد کوئٹہ کے ریڈ زون سے دھرنا ختم کردیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ سردارعبدالرحمن کھیتران کے بیٹے انعام کھیتران نے واقع میں ملوث ہونے کا الزام اپنے والد پرلگایا تھا، کرائم برانچ کوئٹہ نے انعام کھیتران کو بھی اسی مقدمے میں چالان کیا تھا جس پر وہ سیشن جج بارکھان سےعبوری ضمانت حاصل کرکے کرائم برانچ میں پیش ہوئے تھے جہاں تفتیشی افسر نے ان کا بیان ریکارڈ کیا۔
دوسری جانب سانحہ بارکھان کےبعد صوبائی وزیر سردار عبدالرحمن کھیتران کو کالعدم تنظیم کی جانب سے حملے کی دھمکی بھی دی گئی ہے جس پر ایس پی بارکھان کی جانب سے سردار عبدالرحمن کی سیکیورٹی بڑھانے کی ہدایت کرتے ہوئے اس حوالے سے مراسلہ جاری کردیا ہے۔