خوشبوؤں کے شہر پشاور سے اب خون کی بساند اٹھنے لگی ہے، رمضان کے مبارک مہینے میں پشاور اقلیتوں کیلئے خون کی وادی بن گیا ہے۔
پاکستان بالخصوص خیبرپختونخوا میں اقلیتوں پر حملوں کا تسلسل جاری ہے۔ 31 مارچ کو دیال سنگھ کو ان کے جنرل اسٹور میں فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔ پچھلے سات سال کے دوران پشاور کی سکھ برادری میں قتل کا یہ ساتواں واقعہ ہے۔
پشاور میں ٹارگٹ کلنگ کے یہ واقعات سکھ کمیونٹی تک محدود نہیں بلکہ عیسائی کمیونٹی کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔
یکم اپریل کو پشاور میونسیپل میں خاکروب کے فرائض ادا کرنے والے کاشف مسیح کو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے گھر کے قریب فائرنگ کرکے قتل کردیا۔
آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں اس پر گفتگو کرتے ہوئے خیبرپختونخوا کے نگراں وزیرِ اطلاعات اور اقلیتی امور بیرسٹر فیروز جمال شاہ کاکا خیل کا کہنا ہے کہ دیال سنگھ اور کاشف مسیح کے قتل کی تحقیقات ابھی جاری ہیں، ابھی کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ آیا یہ ایک ہی گروہ اور پیٹرن ہے۔ یہی موٹیو ہم جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ داعش کے ذمہ داری قبول کرنے کی کوئی اطلاعات نہیں ہیں نہ کسی اور نے ذمہ داری لی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کاشف مسیح اور دیال سنگھ کے لواحقین کو پانچ پانچ لاکھ روپے ادا کرے گی۔
جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سابق رکن صوبائی اسمبلی رنجیت سنگھ کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ جب ہم پی ٹی آئی دور میں اپوزیشن کا حصہ تھے اس وقت آئی جی صاحب نے ہمیں بتایا تھا کہ ہم ان تمام ٹارگٹ کلرز کو ختم کرچکے ہیں، اس وقت بھی کہا جاتا تھا کہ یہ داعش نے قبول کیا ہے، اس وقت بھی میں اسمبلی فلور پر پکارتا رہا کہ اقلیتوں کو تحفظ دینا ہماری اس حکومت کا کام ہے۔
انہوں نے کہا کہ لیکن افسوس یہ ہے اس سب کے باوجود خیبرپختونوا میں ہمارے سکھ بھائی اور سندھ میں ڈاکٹر بیربل کو قتل کیا جارہا ہے۔ ہمارے پرانے زخم بھرے نہیں کہ نئے زخم دے دئے جاتے ہیں۔
رنجیت سنگھ نے مزید کہا کہ جب خودکش حملے ہو رہے تھے تو میں نے کہا تھا کہ پولیس ہمارے لوگوں کو ٹریننگ دے، انہیں اسلحہ لائسنس جاتری کئے جائیں کہ کم سے کم وہ اپنا مقابلہ تو کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا دیال سنگھ کا قتل رمضان پیکیج دینے کی وجہ سے ہوا، سوشل میڈیا اسے ایک الگ رنگ دے رہا ہے۔