پاکستان بار کونسل کے چئیرمین حسن رضا پاشا کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اسی لئے بار کونسل نے پروسیڈنگز کے دوران اور پروسیڈنگز سے پہلے فل بینچ کی بات کی تھی۔ ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ پی ٹی آئی کے دوست اسے کیوں غلط رنگ دیتے رہے، یہ ان کی بھی بہتری کیلئے تھا۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں گفتگو کرتے ہوئے حسن رضا پاشا نے کہا کہ یہ سیاسی مقدمہ تھا آئینی معاملہ تھا، ہم دیکھ رہے تھے کہ یہ گڑبڑ ہو گی اور آج یہ ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب دس تاریخ کے بعد پھر سپریم کورٹ میں یہ میدان سجے گا، ملکی قیادت وہاں آئے گی، وکلاء آئیں گے اور قانونی مباحثے اور دلائل ہوں گے۔
ایک سوال کے جواب میں پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ماہر قانون شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ یکم مارچ کے فیصلے کو کسی نے چیلنج نہیں کیا، وہ نافذ بھی ہوگیا۔ یکطرفہ طور پر الیکشن کمیشن نے اپنا سارا شیڈول واپس لے لیا اور چھ مہینے بعدکی آٹھ اکتوبر تاریخ دیدی۔ اس پر نئی آئینی پٹیشن آگئی۔ جس میں الیکشن کمیشن نے تین سوال اٹھائے۔
انہوں نے کہا کہ پہلا سوال یہ تھا کہ کیا الیکشن کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ خود تاریخ دے یا تاریخ تبدیل کردے۔ جس پر کسی ایک وکیل نے نہیں کہا کہ اسے ایسا کرنے کا اختیار طاقت حاصل ہے، نہ آئین کے مطابق اور نہ الیکشن کمیشن کے مطابق۔
ان کے مطابق دوسرا سوال تھا کہ کیا نوے دن میں انتخابات ممکن ہیں؟ سب نے کہا کہ جی نہیں ہوسکتے۔ تیسرا نکتہ یہ تھا کہ الیکشن کمیشن نے جو توجیہہ پیش کی اس کی کوئی حیثیت ہے؟ سیکریٹری دفاع و خزانہ سے بریفنگ لینے کے بعد کوئی ایک نکتہ ان کے پاس نہیں تھا کہ وہ کیوں الیکشن میں نہیں جانا چاہتے ، سوائے اس کے کہ ان کی نیت نہیں ہے۔
فل کورٹ کیوں نہیں بنایا جارہا؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فل کورٹ اس وقت درکار ہوتی ہے جب آئین کی شق کی تشریح کرنا ہو، یہ حقائق کا تنازعہ تھا جس پر تین رکنی بینچ بھی کافی تھا۔
پروگرام میں وزیر مملکت برائے توانائی سینیٹر مصدق ملک نے میزبان عاصمہ شیرازی کے سوال ”کیا حکومت فیصلے کے خلاف ڈٹ گئی ہے؟“ کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمان اور کابینہ کا فیصلہ دیکھیں تو بحران سا پیدا ہورہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو شق آئین میں موجود ہے وہ صرف پنجاب کیلئے تو نہیں ہے ، وہ خیبرپختونخوا کیلئے بھی ہے، خیبرپختونخوا کیا سویڈن کا حصہ ہے؟ یا فن لینڈ میں ہے؟
مصدق ملک نے طنزیہ کہا کہ ’پنجاب میں تو نوے دن میں ہم نے سوموٹو لے کر فیصلہ کردیا، اور دوسرا صوبہ؟ ارے اس کو چھوڑیں یار دوسرے صوبے کی کیا بات کرنی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے میں لیجیٹمیسی (قانونی حیثیت) کی کمی ہے، جس فیصلے میں لیجیٹمیسی کی کمی ہو اس پر کسی کو اعتماد نہیں ہوتا، عدالتی فیصلوں کو لیجیٹیمیٹ فیصلے کے طور پر سامنے آنا چاہئیے۔
حسن رضا پاشا کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کا عدالتی بل دو ایوانوں سے منظوری کے بعد اب صدر کے پاس ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کی جگہ عمران خان فل کورٹ بنانے کا کہتے اور ان کی بات بار بار مسترد کی جاتی تو ان کے پاس کیا راستہ تھا؟ جب کوئی بار بار انصاف کا دروازہ کھٹکھٹا رہا ہو اور اس کی بات نہ سنی جائے تو وہ کیا کرے گا، وہ خود کو تیل چھڑک کر آگ ہی لگائے گا۔