Aaj Logo

شائع 05 اپريل 2023 09:18pm

بھارتی نژاد برطانوی وزیراعظم کی حکومت جنسی مجرموں کے نام پر پاکستانیوں کے پیچھے پڑ گئی

برطانیہ میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بچوں کے ساتھ بدسلوکی اور بد فعلی کے متعددد واقعات نے ہلچل مچا دی ہے، ان جرائم میں ملوث افراد کو ”گرومنگ گینگ“ کا نام دیا گیا ہے۔

ان واقعات میں 11 سال سے کم عمر کی بچیوں کو شراب اور منشیات دے کر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، انہیں اسمگل کیا گیا، جسم فروشی پر مجبور کیا گیا اور کئی مردوں نے ایک سے زیادہ مواقع پر ان کی عصمت دری کی۔

بچوں کے جنسی استحصال کی شدت نے ملک بھر میں تشویش کو بڑھاوا دیا ہے، جبکہ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ ان جرائم میں ملوث صرف چند ہی مجرموں پر مقدمہ چلایا گیا اور انہیں سزا سنائی گئی۔

لیکن اب، بھارتی نژاد برطانوی وزیر اعظم رشی سنک نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ گرومنگ گینگز کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور مزید مجرموں کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کے لیے جو کچھ کرنا پڑے گا وہ کریں گے۔

برطانوی وزیر اعظم نے اس خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک نئی ”گرومنگ گینگز ٹاسک فورس“ کا اعلان کیا ہے۔

لیکن برطانوی حکومت کی جانب سے باضابطہ طور پر ٹاسک فورس کا اعلان کرنے سے ایک دن قبل، ہوم سیکرٹری سویلا بریورمین نے ایک نئی بحث چھیڑ دی، جس میں انہوں نے کہا کہ اس طرح کے جرائم کے مرتکب ”مردوں کے گروہ، تقریباً تمام پاکستانی نژاد برطانوی“ ہیں۔

برطانوی وزیر کی جانب سے مجرموں کی نسل کے تذکرے نے ایک ”نواں کٹا“ کھول دیا ہے۔

ان کے اس بیان نے مباحثوں کو بھی تقسیم کردیا ہے، ایک طرف دعویٰ کیا جارہا ہے ان مردوں کی ثقافت جرائم کا باعث بنی، جب کہ دوسروں کو خدشہ ہے کہ نسلی تعصبات تفتیش میں رکاوٹ بنیں گے۔

اس معاملے کو جاننے کیلئے ہمیں گرومنگ گینگ کے بارے میں، جرائم میں سزا یافتہ افراد کے بارے میں، مجرموں کی نسلی شخصیت کے بارے میں ہونے والی بحث، سویلا بریورمین کے حالیہ ریمارکس اور برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سنک کی طرف سے شروع کی گئی ٹاسک فورس کے بارے میں تھوڑا سا جاننے کی ضرورت ہے۔

گرومنگ گینگز کیا ہیں؟

گرومنگ سے مراد ایک بتدریج عمل ہے، جس میں دن، ہفتے یا مہینے شامل ہوتے ہیں، اس عمل میں بدسلوکی یا بدفعلی کرنے والا شخص ممکنہ شکار کا اعتماد جیتتا ہے۔

یہ تعلق کسی اجنبی یا کسی ایسے شخص سے جس سے متاثرہ شخص واقف ہو معمول کے طور پر شروع ہوسکتا ہے، جو پھر متاثرہ کے ساتھ رابطہ قائم کرتا ہے۔

بد فعلی کرنے والا ممکنہ شکار پر خصوصی توجہ دیتا ہے اور انہیں لالچ دینے کے لیے تعریفیں اور تحائف پیش کرتا ہے۔ انہیں ہر موقع پران کی کمزوریوں کا احسا دلایا جاتا ہے۔

اس کے بعد، شکار کو جنسی رویے سے بے حس یا عادی کیا جاتا ہے جس کا مقصد ان کی مزاحمت ختم کرنا ہے۔

اس کے نتیجے میں، متاثرہ کے جنسی استحصال کو پہچاننے اور اس کی اطلاع دینے کا امکان کم ہوجاتا ہے۔

برطانیہ میں قائم ایک تنظیم، نیشنل سوسائٹی فار دی پریونشن آف کرولٹی ٹو چلڈرن (NSPCC) کے مطابق، ”جن بچوں اور نوجوانوں کی اس طرح گرومنگ کی جاتی ہے، انہیں جنسی زیادتی، استحصال یا اسمگل کیا جا سکتا ہے۔“

اور یہ سب برطانیہ میں بہت بڑے اور خوفناک پیمانے پر نوعمروں کے ساتھ ہو رہا تھا۔

ہڈرزفیلڈ، رودرہم، روچڈیل، آکسفورڈ، برسٹل، پیٹربورو، نیو کیسل سمیت برطانیہ بھر میں یکے بعد دیگرے جنسی استحصال کے اسکینڈلز کا پردہ فاش ہوا۔

نوجوان برطانوی لڑکیاں مردوں کے گینگ کا شکار ہوئیں، جو ان کی عصمت دری اور زیادتی کرتے تھے۔

متاثرین اور ان کے خلاف ہونے والے جنسی جرائم کی تعداد چونکا دینے کے لیے کافی تھی۔

ان مقدمات میں سزا

2018 میں، ہڈرز فیلڈ میں 20 مردوں کے ایک گینگ کو نوعمرلڑکیوں کی اسمگلنگ اور جنسی زیادتی کا مجرم قرار دیا گیا، اس کیس کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ یہ برطانیہ کا واحد سب سے بڑا گرومنگ پراسیکیوشن ہے۔

مجرموں کو 2004 سے 2011 کے درمیان ہڈرز فیلڈ میں 15 لڑکیوں کے خلاف 120 سے زیادہ جنسی جرائم کا مرتکب پایا گیا تھا۔

روچڈیل اور اولڈہم کے نو افراد کو نوجوان لڑکیوں کا استحصال کرنے پر جیل بھیج دیا گیا۔

بی بی سی کی 2012 کی ایک رپورٹ کے مطابق، اس گروپ پر متاثرین کو شراب اور نشہ آور چیزوں پر لگانے اور جنسی تعلقات کے لیے ”دوسروں کو فراہم“ کرنے کا الزام تھا۔

تمام مجرموں کو 16 سال سے کم عمر کی لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا مجرم پایا گیا تھا۔ سزا پانے والوں میں سے آٹھ پاکستانی اور ایک کا تعلق افغانستان سے تھا۔

آکسفورڈ میں 2018 میں آٹھ مردوں کو سات سال کے دوران 13 سال سے کم عمر لڑکیوں کو تیار کرنے اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے جرم میں جیل بھیج دیا گیا تھا۔

دی گارڈین کی 2018 کی رپورٹ کے مطابق، مجرموں نے کاروں، سڑک کناروں، پارکوں اور گیسٹ ہاؤسز میں بچوں کے ساتھ عصمت دری کی اور ان پر حملہ کیا۔ ان میں زیادہ تر پاکستانی نژاد برطانوی شہری تھے۔

درج بالا کے علاوہ مزید افراد کو بھی سزا سنائی گئی، لیکن ان میں سے بہت سے ان گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کرنے کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

قومیت کا تذکرہ کیوں؟

ستمبر 2012 میں، ٹائمز میں ایک مضمون میں انکشاف کیا گیا کہ 2010 کی پولیس رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ ’ایشیائی مردوں کے نیٹ ورکس‘ جنوبی یارکشائر میں بچوں کے خلاف بڑے پیمانے پر جنسی جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

چونکا دینے والے مضمون کے باعث پروفیسر الیکسس جے کی سربراہی میں ایک آزادانہ تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔

بی بی سی کی جون 2022 کی ایک رپورٹ کے مطابق 2014 میں شائع ہونے والی انکوائری رپورٹ میں پروفیسر الیکسس جے نے تفصیلات بتائیں کہ کس طرح پاکستان سے تعلق رکھنے والے مردوں نے 11 سال سے کم عمر لڑکیوں کی عصمت دری کی ، انہیں اسمگل کیا ، اغوا کیا ، مارا پیٹا، اور ڈرایا۔

انسداد انتہا پسندی کے تھنک ٹینک کویلیم فاؤنڈیشن کی 2017 کی ایک رپورٹ کے مطابق، گرومنگ گینگ کے مجرموں میں سے 84 فیصد ایشیائی تھے، جن کی اکثریت ”پاکستانی نژاد مسلمانوں“ پر مشتمل تھی۔

تاہم، ناقدین نے ایسی رپورٹوں اور تحریروں کے نقصانات کے حوالے سے خبردار بھی کیا ہے۔

دی گارڈین کی 2018 کی ایک رپورٹ کے مطابق، بچوں کے جنسی استحصال پر کراؤن پراسیکیوشن سروس کے سابق سربراہ اور گرومنگ گینگز کو زیر کرنے میں ملوث پراسیکیوٹر نذیر افضل کے مطابق، میڈیا نے ایشیائی باشندوں کے کیسز پر زور دیا، لیکن اکثر سفید فام مجرموں کو نظر انداز کیا۔

گروہ پر مبنی بچوں کے جنسی استحصال سے متعلق 2020 کے یوکے ہوم آفس کی رپورٹ میں پتا چلا ہے کہ اگرچہ کچھ مطالعات سیاہ فام اور ایشیائی مجرموں کی ممکنہ حد سے زیادہ نمائندگی کو ظاہر کرتی ہیں، لیکن یہ نتیجہ اخذ کرنا ممکن نہیں تھا کہ یہ تمام گرومنگ گینگز کے نمائندہ تھے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ مجرموں میں زیادہ تر نوجوان سفید فام تھے۔

سویلا بریورمین نے کیا کہا؟

لیکن برطانوی حکومت کی جانب سے اپنی رپورٹ میں اس حقیقت کی حمایت نہ کرنے کے باوجود وزیر داخلہ سویلا بریورمین نے اتوار کو گرومنگ گینگز کے بارے میں خدشات پر بات کی اور کہا کہ ”جرم کرنے والے مردوں کے گروہ ہیں جو تقریباً تمام برٹش پاکستانی ہیں اور ایسے ثقافتی اقدار رکھتے ہیں جو برطانویوں کے ساتھ بالکل مطابقت نہیں رکھتے۔“

ان کے اس بیان کو ویسٹ یارکشائر کی لیبر میئر ٹریسی بریبن نے ’ڈاگ وِسل‘ کا نام دیا ہے، یعنی مخصوص گروپ کو نشانہ بنانے کے لیے سیاسی پیغام دینا۔

انہوں نے حکام پر ”نسل پرست“ کا لیبل لگنے کے خوف سے ”آنکھیں بند کرنے“ کا الزام بھی لگایا۔

بریورمین نے کہا کہ پاکستانی نژاد مرد ان ثقافتی اقدار کے حامل تھے جو برطانوی اقدار کے ساتھ ”مکمل طور پر متصادم“ ہیں، اور یہ مرد خواتین کو ”فرسودہ اور بے تکلفانہ طور پر گھناؤنے“ انداز میں برتاؤ کرتے ہوئے ”تذلیل اور ناجائز انداز“ سے دیکھتے ہیں۔

بریورمین کے تبصروں پر بچوں کے لیے ظلم کی روک تھام کے لیے نیشنل سوسائٹی (NSPCC) کی جانب سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا، جس نے متنبہ کیا کہ جنسی شکاری صرف ”ایک پس منظر“ سے نہیں آتے اور یہ کہ صرف قومیت پر توجہ مرکوز کرنے سے بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے معاملات سے نمٹنے میں نئے ”بلائنڈ اسپاٹ“ پیدا ہو سکتے ہیں۔

پاکستان کا ردعمل

دوسری جانب پاکستان کے دفتر خارجہ نے برطانوی سیکریٹری داخلہ کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”اس بیان سے ایک گمراہ کن تصویر پیش کی گئی جس کا مقصد برطانوی پاکستانیوں کو ہدف بنانا اور مختلف انداز میں پیش کرنا مقصود ہے۔“

بی بی سی کے مطابق دفتر خارجہ نے کہا کہ برطانوی سیکریٹری نے چند افراد کے مجرمانہ رویے کو ایک پوری کمیونٹی کی نمائندگی کے طور پر پیش کیا۔

دفتر خارجہ کے مطابق برطانوی سیکرٹری داخلہ نے پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں کی جانب سے برطانوی معاشرے میں بے شمار ثقافتی، معاشی اور سیاسی خدمات کو بھلا دیا اور برطانیہ میں موجود نسل پرستی کا بھی ذکر نہیں کیا۔

گرومنگ گینگز ٹاسک فورس

برطانوی حکومت نے ایک نئی گرومنگ گینگز ٹاسک فورس کا اعلان کیا ہے جس میں بچوں کے زندہ جنسی استحصال اور گرومنگ کی تحقیقات میں پولیس فورس کی مدد کرنے کے لیے ماہر افسران کو پیراشوٹ کیا جائے گا، تاکہ ان مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔

ٹاسک فورس کے بارے میں بات کرتے ہوئے، برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سنک نے کہا، ”خواتین اور لڑکیوں کی حفاظت سب سے اہم ہے۔ طویل عرصے سے موجود پولیٹیکل کریکٹنس (زبان، پالیسیوں، یا اقدامات کی وضاحت کرنے کے لیے استعمال ہونے والی ایک اصطلاح جس کا مقصد معاشرے میں مخصوص گروہوں کے اراکین کو جرم یا نقصان سے بچانا ہے) نے ہمیں ایسے گھٹیا مجرموں کو ختم کرنے سے روکا ہے جو بچوں اور جوان عورتوں کا شکار کرتے ہیں۔ ہم ان خطرناک گروہوں کو ختم کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔“

ایک بیان میں ڈاؤننگ اسٹریٹ نے کہا کہ، “ڈیٹا تجزیہ کار ٹاسک فورس کے ساتھ مل کر کام کریں گے تاکہ ان جرائم کو انجام دینے والے مجرموں کی اقسام کی نشاندہی کی جا سکے، جس سے ملک بھر کی پولیس فورس کو مجرموں کو پکڑنے میں مدد ملے گی جو بصورت دیگر چھوٹ سکتے ہیں۔ اس میں پولیس کا ریکارڈ شدہ نسلی ڈیٹا بھی شامل ہوگا تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ ثقافتی حساسیت کی وجہ سے مشتبہ افراد انصاف سے بچ نہ پائیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ اس میں گرومنگ گینگز کے میک اپ بشمول قومیت کے بارے میں بہتر ڈیٹا شامل ہوگا، جو اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مشتبہ افراد انصاف سے بچنے کے طریقے کے طور پر ثقافتی حساسیت کے پیچھے چھپ نہ سکیں۔

Read Comments