Aaj Logo

شائع 04 اپريل 2023 06:42pm

اسمگل شدہ ایرانی تیل کے باعث پاکستانی پیٹرولیم مصنوعات کی کھپت میں کمی

بلوچستان سے ایرانی پیڑول اور ڈیزل کی اسمگلنگ عروج پر ہے، اسمگل شدہ تیل کی حکام کی ملی بھگت سے سندھ اور پنجاب تک ترسیل کی جارہی ہے، ایرانی تیل سے لدی گاڑیوں اور مسافر بسوں کے باعث آئے روز حادثات بھی پیش آتے ہیں۔

کوئٹہ سیمت ملک بھر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت بڑھ جانے کے بعد ہمسایہ ملک ایران سے سستا ایرانی پیڑول بڑی مقدار میں بلوچستان سندھ اور پنجاب میں سمگل کیا جارہا ہے۔

عارف حبیب لمیٹڈ ریسرچ کے جاری کردہ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق اس اسمبگلنگ کے باعث پاکستان میں ڈیزل کی فروخت میں 43 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔

مالیاتی امور کے ایک ماہر عبدالرحمان کا کہنا ہے کہ ٹرک انڈسٹری سے وابستہ بہت سے لوگوں کا رجحان ایرانی ڈیزل کی طرف ہوگیا ہے، جو کراچی کے مضافات میں آسانی سے دستیاب ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب بھی حکومت ڈیزل پر ٹیکس وصول کرنے کی کوشش کرتی ہے تو پرائس ڈیلٹا اسمگلنگ کو فروغ دیتا ہے۔

اندرون بلوچستان دو سو روپے اور کوئٹہ میں دو سو بیس روپے میں اسمگل شدہ پیٹرول سرعام فروخت ہورہا ہے۔

مسافر بسوں میں پیڑول اور ڈیزل کی ترسیل کے باعث کئی حادثات بھی قومی شاہراہوں پر پیش آچکے ہیں۔

کوئٹہ میں صنعتیں نہ ہونے کے باعث بے روزگاری عام ہے، اس لئے ہر سڑک پر ایرانی پیٹرول فروخت ہورہا ہے۔

ایران سے تیل پاکستان کس طرح اسمگل کیا جاتا ہے

پنجگور اور دیگر سرحدی علاقوں سے سوراب، بیلہ میں قائم بڑے نجی ڈپو ایرانی تیل کے بڑے مراکز ہیں، جہاں سے مسافر بسوں اور گاڑیوں کی خفیہ ٹنکیوں میں بھر کر ایرانی پیٹرول اور ڈیزل ملک بھر میں اسمگل کیا جارہا ہے۔

ایک گمنام ڈیٹا ماہر نے حال ہی میں اس مسئلے پر ایک بہت ہی قابل اعتماد ٹویٹر تھریڈ لکھا۔

انہوں نے اس تھریڈ میں کہا کہ، ”ڈیزل کی اسمگلنگ قانونی کاروباری سرگرمیوں کو نقصان پہنچانے، ٹیکسوں سے بچنے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان بلوچستان میں منظم جرائم کو ہوا دینے اور سرحدی کنٹرول کے مؤثر اقدامات کے فقدان کے باعث جاری ہے۔“

اسمگلروں کا سب سے بڑا ذریعہ دریائے دشت کے راستے جیوانی کا سمندری راستہ ہے، جسے استعمال کرتے ہوئے ڈیزل کو کنستروں یا ڈرموں میں بھر کر اسپیڈ بوٹس کے زریعے لایا جاتا ہے اور روزانہ لاکھوں روپے مالیت کا ڈیزل، پیٹرول، اسلحہ اور منشیات سے بھری ہزاروں کلشتیاں تقریباً پورے پاکستان کیلئے مال سپلائی کرتی ہیں۔

یہ تمام اسپیڈ بوٹس شہرک مسکنین اور سیستان صوبہ کے دیگر قریبی علاقوں سے آتی ہیں جو پاکستانی سرحد عبور کرنے کے بعد جیوانی تک پہنچنے کے لیے 15 سے 18 کلومیٹر کا سفر طے کرتی ہیں۔

جیوانی پہنچنے کے بعد تقریباً 4.7 کلومیٹر (گوگل کے مطابق) لمبا ساحل ہے، جو ڈیزل یا پٹرول اور اسمگل شدہ سامان کو اتارنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، جہاں سیمنٹ کے ٹینک، اسٹوریج اور ہوٹلوں کا مناسب انتظام ہوتا ہے جہاں اسمگلنگ سے وابستہ روزانہ ہزاروں لوگ موجود ہوتے ہیں۔

طویل ساحل پر کین سے ایندھن کو زیر زمین ٹینکوں میں ڈمپ کیا جاتا ہے، جہسں سے بعد میں اسے ٹویوٹا پک اپ اور کارگو ٹرکوں میں بھر دیا جاتا ہے۔ ان ٹرکوں کے اندر بھی خفیہ ٹینک موجود ہوتے ہیں اور انہیں مختلف سامان سے چھپایا جاتا ہے۔

یہ ٹرک گوادر پہنچتے ہیں جہاں نقل و حمل کے ذرائع تبدیل کئے جاتے ہیں۔

وہاں اسے نان کسٹم پیڈ (ایرانی) ٹویوٹا پک اپس میں ہائی وے پر منتقل کرنے کے لیے دوسرے کین میں بھرا جاتا ہے اور روزانہ ہزاروں گاڑیاں اس اسمگل شدہ سامان کو پورے بلوچستان، جنوبی پنجاب اور سندھ کے سرحدی علاقوں میں لے جاتی ہیں۔

یہاں عوام کے روزگار کا یہی واحد ذریعہ ہے، حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اس مافیا کو روکنے میں ناکام ہیں، جس کی وجہ بہت بڑے پیمانے پر کرپشن ، سردار اور اعلیٰ سرکاری اشرافیہ ہیں۔

Read Comments