سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کو جنگ والے اہلکار درکار ہیں، بری فوج مصروف ہے تو نیوی، ائیرفورس سے مدد لی جا سکتی ہے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پنجاب خیبرپختونخوا انتخابات میں تاخیر کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کی۔
وفاقی حکومت نے انتخابات کیس میں اپنا جواب جمع کراتے ہوئے سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ پر اعتراض اٹھا دیا۔ اور عدالت سے پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کردی۔
حکومتی جواب میں کہا گیا کہ یکم مارچ کا سپریم کورٹ کا فیصلہ اکثریت سے دیا گیا، 3 رکنی بینچ متبادل کے طور پر درخواست پر سماعت نہ کرے۔
جواب میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کی درخواست مؤخر کی جائے۔
مزید پڑھیں: الیکشن تاخیر کیس پر فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد، سماعت پیر تک ملتوی
وفاقی حکومت کی جانب سے جواب میں کہا گیا کہ جسٹس اعجازالاحسن پہلے ہی کیس سننے سے انکار کرچکے ہیں، پہلے راؤنڈ میں دیا گیا الیکشن کا فیصلہ 4،3 کی اکثریت سے دیا گیا، چیف جسٹس، جسٹس منیب اختر فیصلہ دینے والے بینچ کا حصہ تھے، چیف جسٹس اورجسٹس منیب اختر بھی اس کیس کو نہ سنیں۔
پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ ناٸیک کے دلائل
پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ ناٸیک روسٹرم پرآٸے تو جسٹس منیب اختر نے ان کے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اخبارات توکچھ اورکہہ رہے ہیں، کیا آپ نےبائیکاٹ ختم کردیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اخبارات میں بائیکاٹ کا چھپا ہوا ہے۔
فاروق نائیک نے جواب دیا کہ ہم نے کوئی بائیکاٹ نہیں کیا، ہم کارروائی میں شامل ہوں گے، بینچ سے متعلق ہم کچھ تحفظات ہیں۔
سپریم کورٹ کا حکومتی اتحادکےوکلاء کو سننے سے انکار
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم ابھی آپ کوسن نہیں رہے اس پر وضاحت کریں، اگر آپ بائیکاٹ نہیں کر رہے تو تحرہری طور پر بتائیں۔
مسلم لیگ ن کے وکیل اکرم شیخ کا بیان
وکیل ن لیگ اکرم شیخ عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ہمارا وکالت نامہ اپ کے پاس ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ن لیگ کے وکیل سے کہا کہ آپ کا وکالت نامہ موجود ہے، لیکن بیان دیئے گئے ہیں اس کا کیا۔ جس پر اکرم شیخ نے جواب دیا کہ ہم وکلا اپ کے سامنے آئے ہیں، اس کا مطلب آپ پر اعتبارہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ ایک طرف اعتراض دوسری طرف کارروائی کاحصہ بھی بنتے ہیں، حکومتی اتحاد اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنائیں، جو زباں اس میں استعمال کی گئی ہے۔
جمیعت علمائے اسلام ف کے وکیل کامران مرتضیٰ نے عدالت سے کہا کہ ہمارے تحفظات بینچ پر ہیں۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہمیں درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر تحفظات ہیں۔
اٹارنی جنرل پاکستان کے دلائل
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے استفسار کیا کہ بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں، اٹارنی جنرل صاحب آپ کو کیا ہدایت ملی ہیں۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکومت بائیکاٹ نہیں کرسکتی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سنجیدہ اٹارنی جنرل سے ایسی ہی توقع تھی۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا ہے، صدر کو خیبرپختونخوا میں تاریخ دینے کی استدعا کی گئی، درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی فیصلہ ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سوال اٹھایا تھا کہ الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے، قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اصل معاملہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے کا ہے، الیکشن کمیشن کا حکم برقراررہا تو تمام استدعا ختم ہو جائیں گی۔
عرفان قادر کا اٹارنی جنرل کو لقمہ
سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر کا اٹارنی جنرل عثمان منصور کے کان میں لقمہ دیا تو جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ کیا عرفان قادراٹارنی جنرل کو بچانے آئے ہیں۔ عرفان قادر نے جواب دیا کہ 15 سیکنڈز کا معاملہ ہے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ 3 منٹ سے15سیکنڈ پر آگئے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جب بینچ دوبارہ تشکیل ہوا تو 5 رکنی تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پہلے والے اراکین شامل کرنے کا پابند نہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یکم مارچ کوبھی کوئی عدالتی حکم نہیں تھا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں 5 رکنی بینچ بنا نہیں تھا، کس قانون کے تحت آرڈر آف دی کورٹ ضروری ہوتا ہے، ججز میں ہم آہنگی سپریم کورٹ کیلئے بہت اہم ہے، ججز کے بہت سے معاملات آپس کے ہوتے ہیں، عدالتی کارروائی پبلک ہوتی ہے، ججز کی مشاورت نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ 4/3 والی منطق مان لی تو معاملہ 9 رکنی بینچ کے پاس جائے گا، فیصلہ یا 9 رکنی بینچ کا ہوگا یا 5 رکنی بینچ کا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تفصیلی اختلافی نوٹ بینچ کےازسرنوتشکیل کانقطہ شامل نہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نوٹ کے مطابق بینچ کی ازسر نو تشکیل انتظامی اقدام تھا، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی نے معذرت کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نوٹ کے مطابق 4 ججز نے خود کو بینچ سے الگ کیا، بہتر طریقہ یہ تھا کہ لکھتے کہ 4 ججز کو بینچ سے نکالا گیا، فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کون رضاکارانہ الگ ہو رہا ہے، کسی نے بینچ سے الگ ہونا ہو تو جوڈیشل آرڈر لکھا جاتا ہے، کوئی شق نہیں کہ جج کو بینچ سے نکالا نہیں جاسکتا، عدالت بینچ کی ازسر نو تشکیل کا حکم دے تو اسے نکالنا نہیں کہتے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے کہ ازسر نو تشکیل میں تمام 5 نئے ججز آ جاتے تو کیا ہوتا، کیا نیا بینچ پرانے 2 ججز کے فیصلوں کو ساتھ ملا سکتا ہے، نیا بینچ تشکیل دینا جوڈیشل حکم تھا انتظامی نہیں۔
اٹارنی جنرل نے اعتراض اٹھایا کہ 2 ججز نے جو رائے دی اسے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ جسٹس یحییٰ نے کہا اپنی شمولیت چیف جسٹس پر چھوڑتے ہیں، بینچ کا کوئی رکن بھی نہ ہو تو سماعت نہیں ہوسکتی، 5 رکنی بینچ نے 2 دن کیس سنا، کیا کسی نے کہا 2 ارکان موجود نہیں، کیا کسی نے یہ کہا کہ بینچ 7 رکنی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 2 ججز کی رائے کے بعد نیا بینچ بنا اور از سرِ نو سماعت ہوئی، بینچ ارکان نے دونوں ججز کے رکن ہونے کا نقطہ نہیں اٹھایا۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف پیش کیا کہ 4 آراء کے مطابق درخواستیں خارج ہوئی ہیں۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کا نقطہ سمجھ گئے اگلے نقطے پر آئیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ زیر حاشیہ میں بھی لکھا کہ 2 ججز کی آراء ریکارڈ کا حصہ ہے، فیصلے کا نہیں، ریکارڈ میں تومتفرق درخواستیں اور حکمنامے بھی شامل ہوئے ہیں، ابھی تک آپ ہمیں اس نقطے پر قائل نہیں کرسکے۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ مسئلہ یہ ہے کہ اکثریت میں رائے کس کی ہے، حل یہ ہے کہ جنہوں نے پہلے مقدمہ سنا وہ بینچ سے الگ ہو جائیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کا نقطہ نوٹ کرلیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ رجسٹرارآفس نے ایک سرکلر جاری کیا ہے، سرکلر جسٹس فائز کے 29 مئی کے فیصلے کے بعد جاری کیا گیا، عدالتی حکم کو انتظامی سرکلر سے ختم نہیں کیا جا سکتا ہے، عدالتی حکم نظرثانی یا کالعدم ہونے پر ہی ختم ہوسکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سرکلر سے کسی فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا، 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکنے کے معاملے پر سرکلر آیا، مقدمات سماعت کیلئے مقرر نہ کرنے کے انتظامی حکم پر سرکلر آیا، جسٹس فائزعیسی کے فیصلے میں کوئی واضح حکم نہیں دیا گیا۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف پیش کیا کہ 184/3 کے تحت درخواستوں کے حوالے سے رولز موجود ہیں، ازخودنوٹس پر سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کا فیصلہ موجود ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 29 مارچ کے فیصلہ میں ہدایت نہیں بلکہ خواہش ظاہر کی گئی، فیصلہ میں تیسری کیٹگری بنیادی حقوق کی ہے، بنیادی حقوق تو 184/3 کے ہر مقدمے میں ہوتے ہیں۔
جسٹس منیب نے استفسار کیا کہ کیا یہ آئینی درخواست نہیں ہے جس کے رولز بنے ہوئے ہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کرتے ہوئے استدعا کی کہ موجودہ مقدمہ میں بنیادی حقوق کا ذکرہے، موجودہ کیس تیسری کیٹگری میں آسکتا ہے، رولز بننے تک سماعت موخرکی جائے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ درخواست کے رولز بنے ہوئے ہیں تو کارروائی کیسے مؤخر کریں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلہ کو پھر بھی سرکلر کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے رواں سال میں پہلا سوموٹونوٹس لیا تھا، 2 اسمبلیوں کے اسپیکرز کی درخواستیں آئی تھیں، اسپیکر ایوان کا محافظ ہوتا ہے، ازخود نوٹس کیلئے بینچ کا نوٹ بھی پڑا ہوا تھا، از خود نوٹس لینے میں ہمیشہ بہت احتیاط کی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ متفق نہیں کہ یہ مقدمہ دیگر 184/3 کے مقدمات سے مختلف ہے، جن کے رولز بنے ہیں ان مقدمات پر کیسے کارروائی روک دیں، 184/3 کے دائرہ اختیار پر بہت سخت طریقہ کار بنایا ہوا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ایک جانب کہتے ہیں فل کورٹ بنائیں اور ساتھ کہتے ہیں سماعت نہ کریں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فل کورٹ کی استدعا جمعہ کو مسترد ہوچکی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ پہلے طے تو کر لیں سماعت ہو سکتی ہے یا نہیں، آپ کا مؤقف مان لیں تو فل کورٹ بھی سماعت نہیں کرسکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فل کورٹ کی استدعا فی الوقت مسترد کی تھی، جسٹس قاضی فائز فیصلے پر دستخط کرنے والے جج نے خود کو الگ کرلیا، کیسے ہو سکتا ہے فیصلہ لکھنے والے جسٹس قاضی فائز مقدمہ سنیں؟، جسٹس امین الدین خان نے فیصلے پر صرف دستخط کیے تھے، سماعت سے معذرت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ ہوگا، سماعت سے انکار تو فرض نہیں کیا جاتا یہ جوڈیشل آرڈر ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تمام 15 ججز مختلف آراء اپنانے پر مقدمہ نہیں سن سکتے، آپ نے معاملہ فہم ہوتے ہوئے دوبارہ فل کورٹ کی استدعاء نہیں کی، آپ کی زیادہ سے زیادہ استدعا لارجر بینچ کی ہوسکتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ لارجر بینچ کی استدعا آگے جاکر کروں گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کسی جج کو بینچ سے نکالا گیا نہ کوئی رضاکارانہ الگ ہوا، 9 ارکان نے چیف جسٹس کو معاملہ بھجوایا، 27 فروری کے 9 ججز کے حکم نامے سے دکھائیں بینچ سے کون الگ ہوا، عدالتی ریکارڈ کے مطابق کسی جج نے سماعت سے معذرت نہیں کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ جسٹس فائزعیسیٰ کا حکم خوبصورت لکھا گیا ہے، فل کورٹ میٹنگ فائدہ مند ہوسکتی ہے لیکن فل بینچ نہیں، گزشتہ 3 دن میں سینئر ججز سے ملاقاتیں کی ہیں، لارجر بینچ کے نکتے پردلائل دینا چاہیں تو ضرور دیں۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف پیش کیا کہ جو ججز 9 رکنی بینچ کا حصہ نہیں تھے ان پر مشتمل بینچ بنایا جائے، 3/2 اور 3/4 کا فیصلہ باقی 2 ججز کو کرنے دیا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس د یئے کہ ایک فیصلہ 3 رکنی اکثریت نے دیا، ایک 2 رکنی اقلیت نے، بنیادی اصول مقدمہ کی سماعت ہے، سنے بغیر فیصلہ محدود نوعیت کا ہی ہو سکتا ہے، سماعت کے بعد کیے گئے فیصلے کا ہی وجود ہوتا ہے، کورٹ فیس ادا نہ کرنے پر بھی تو مقدمہ خارج ہو جاتا ہے، نظرثانی اکثریتی فیصلے کی ہوتی ہے، جن ججز کے نوٹ کا حوالہ دے رہے ہیں کیا وہ 5 رکنی بینچ میں تھے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی حکم کے بغیر کوئی فیصلہ قابل عمل نہیں ہوتا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 2 الگ الگ بینچز نے الگ الگ کارروائی کی تھی۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے بہترین دلائل دے رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ صورتحال سب کیلئے ہی مشکل ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکرٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ کہاں ہیں۔ اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس کو بتایا کہ سیکرٹری خزانہ رپورٹ کے ہمراہ عدالت میں موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اصل مسئلہ سیکیورٹی ایشو ہے، دونوں افسران کوسن کر بھیج دیتے ہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ یہ حساس معاملہ ہے،سیکیورٹی معاملات پران کیمرا سماعت کی جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ فائلز دے دیں ہم جائزہ لے لیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فورسز کا معاملہ صرف آرمی کا نہیں بلکہ نیوی اور ائیرفورس کا ہے، بری فوج مصروف ہے تو نیوی اور ائیرفورس سے مدد لی جا سکتی ہے، الیکشن کمیشن کہتا ہے 50 فیصد پولنگ اسٹیشنز محفوظ ہیں، فوج میں ہر یونٹ یا شعبہ جنگ کیلئے نہیں ہوتا، عدالت نے وہ کام کرنا ہے جو کھلی عدالت میں ہو، کوئی حساس چیز سامنے آئی تو چیمبرمیں سن لیں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ تمام چیزیں ریکارڈ پرموجود ہیں، الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کچھ وجوہات بتائی ہیں۔
سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمود الزمان
سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمود الزمان روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ حساس معلومات نہیں لیں گےمجموعی صورتحال بتا دیں، فل حال پنجاب کا بتائیں، خیبرپختونخوا میں ابھی تاریخ ہی نہیں، کیا پنجاب میں سیکیورٹی حالات سنگین ہیں۔
سیکرٹری دفاع نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب میں سیکیورٹی حالات سنگین ہیں، کھلی عدالت میں تفصیلات نہیں بتا سکتا، نہیں چاہتے معلومات دشمن تک پہنچیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر
عدالت نے پی ٹی آئی کے علی ظفر کو روسٹرم پر بلا لیا اور استفسار کیا کہ ان چیمبر سماعت پر آپ کا کیا مؤقف ہے۔
وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ اہلکار دے دیں تو انتحابات کروا سکتے ہیں، سیکیورٹی اہلکارصرف ایک دن کیلئے دستیاب ہو سکتے ہیں، سیکیورٹی کا ایشو رہے گا آئینی ضرورت 90 دن کی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکیورٹی اہلکار کون دے گا، سوال یہ ہے کہ 8 اکتوبر کو کیسے سب ٹھیک ہو جائے گا، کیا الیکشن کمیشن کو جنگ والے اہلکار درکار ہیں۔
وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ ریٹائرڈ لوگوں کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
سیکرٹری دفاع نے عدالت سے کہا کہ ریزورفورس موجود ہے مخصوص حالات میں بلایا جاتاہے، ریزورفورس کو بلانے کا طریقہ کار موجود ہے۔
چیف جسٹس نے سیکرٹری دفاع کو حکم دیا کہ سر بمپر لفافوں میں رپورٹ فراہم کریں، جائزہ لے کر مواد واپس کردیں گے، اور کوئی سوال ہوا تو اس کا جواب آپ سے لیں گے، آپ چاہیں تو جواب تحریری بھی دے سکتے ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس د یئے کہ حساس معاملات کو سمجھتے ہیں، پبلک نہیں ہونے چاہیئے۔
پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا کہ حساس ترین معلومات کا جائزہ میں بھی نہیں لینا چاہوں گا،اس مقدمے میں سیکورٹی ایشو دیکھنا ضروری نہیں۔
سیکرٹری دفاع نے مؤقف پیش کیا کہ ریزروفورس کی طلبی کیلئے وقت درکار ہوتا ہے، اور اس کی تربیت بھی کی جاتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فوج کی بڑی تعداد بارڈرز پر بھی تعینات ہے، الیکشن ڈیوٹی کیلئے لڑنے والے اہلکاروں کی ضرورت نہیں ہوتی، انتخابات کل نہیں ہونے پورا شیڈول آئے گا۔
وکیل علی ظفر نے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ پیرا ملٹری فورسز، بحری اور فضائیہ سے بھی معلومات لیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جہاں سیکیورٹی صورتحال حساس ہے ان کی نشاندہی کریں، الیکشن کمیشن نے 45 فیصدپولنگ اسٹیشنز کو حساس قرار دیا، جھنگ ضلع پہلے حساس ہوتا تھا اب نہیں، جنوبی پنجاب اور کچے کا علاقہ بھی حساس تصورہوتا ہے۔
عدالت نے سیکریٹری دفاع سے دو گھنٹے میں تحریری رپورٹ طلب کرلی اور جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ جو زبانی بریفنگ دینا چاہتے ہیں وہ لکھ کر دے دیں۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ اپنی پوری کوشش کریں۔
سیکریٹری دفاع نے عدالت سے کل تک مہلت مانگ لی۔ جس پر عدالت نے سیکرٹری دفاع کوکل تک کی مہلت دیدی۔
سیکرٹری خزانہ کی رپورٹ عدالت میں پیش کردی گئی
ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ عامر محمود عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت میں سیکرٹری خزانہ کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ سیکریٹری خزانہ طبیعت ناساز ہونے کے باعث پیش نہیں ہوسکے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا یہ رپورٹ بھی حساس ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئی ایم ایف پروگرام اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے، کرنٹ اکاؤنٹ اورمالی خسارہ کم کیا جارہا ہوگا، آمدن بڑھا کر اور اخراجات کم کرکے خسارہ کم کیا جاسکتا ہے، کون سا ترقیاتی منصوبہ 20 ارب روپے سے کم ہے، درخواست گزار کے مطابق ارکان کو 170 ارب روپے کا فنڈ دیا جا رہا ہے۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف پیش کیا کہ یہ اکتوبر 2022 کی بات ہے۔
ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ پی ایس ڈی پی کے تحت فنڈز پلاننگ کمیشن جاری کرتاہے، ترقیاتی فنڈز پر کوئی کٹ نہیں لگایا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت ہچکچاہٹ کا شکار ہے، حکومت نے کہا کسی سے بات نہیں کریں گے، عدالت فیصلہ کرے، 450 ارب روپے خرچ نہ ہونے کی وجہ اخراجات میں کمی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ترقیاتی اخراجات کم نہیں کرنے توغیر ترقیاتی اخراجات کم کردیں، حکومت نے اخراجات کم کرنے کیلٸے اقدامات کٸے ہیں، آٸینی تقاضہ پورا کرنے کیلٸے آرٹیکل 254ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ مثال بن گٸی تو ہمیشہ مالی مشکلات پر الیکشن نہیں ہوا کریں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آٸندہ مالی سال کے بجٹ میں پیسے رکھیں گے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل
عدالت نے سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا وقفے کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے دلائل شروع کئے، اور کہا کہ کوشش ہے اپنی بات مختصررکھوں، اور کوشش کروں گا کہ 30 منٹ میں تک اپنی بات مکمل کرلوں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے مؤقف پیش کیا کہ اگر جج پر اعتراض ہو تو وہ بینچ سے الگ ہو جاتے ہیں، ایک طرف ایک جماعت دوسری طرف تمام جماعتیں ہیں، بینچ سے جانبداری منسوب کی جارہی ہے، پوری پی ڈی ایم ماضی میں بھی فل کورٹ کامطالبہ کرچکی۔
عرفان قادر نے کہا کہ عدالت پرعدم اعتماد نہیں انصاف ہوتا نظر آنا چاہیئے، عدالت کا ایک فیصلہ پہلے ہی تنازع کا شکار ہے، فی الحال انصاف ہوتا ہوا نظرنہیں آرہا، میری نظر میں انصاف نہیں ہو رہا، ممکن ہے کچھ غلط فہمی ہو۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ 9 میں سے 4 ججز نے درخواستیں خارج کیں، 3 ججزنے حکم جاری کیا، یکم مارچ کاعدالتی حکم اقلیتی نوٹ تھا، عدالت اس تنازعہ کوحل کرنےکیلئےاقدامات کرے، فیصلے کی تناسب کا تنازعہ ججز کا اندرونی معاملہ نہیں۔
عرفان قادر نے مطالبہ کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ درخواستیں خارج کرنے والے ججز کو بھی بینچ میں شامل کیا جائے، سرکلر سے عدالتی فیصلے کا اثر زائل نہیں کیا جا سکتا، چیف جسٹس اپنے سرکلر پر خود جج نہیں بن سکتے، ایک گروپ کے بنیادی حقوق پر اکثریت کے حقوق کو ترجیح دینی چاہیے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ قومی مفاد آئین اور قانون پرعملدرآمد میں ہے، آئین میں 90 دن میں انتخابات ہونا الگ چیز ہے، ملک میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اکٹھے ہوتے ہیں، ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ ہونا چاہئیں ایک ساتھ انتخابات سے مالی طور پر بھی بچت ہوگی، قومی اسمبلی انتخابات میں بھی نگران حکومت ضروری ہے، صوبائی اسمبلی چند ماہ پہلے تحلیل ہوئی ہے دو سال پہلے نہیں۔
عرفان قادر نے کہا کہ ہائیکورٹس میں مقدمات کی سماعت روکنا آئین کے مطابق نہیں، خیبرپختونخوا میں گورنر نے الیکشن کی تاریخ دے دی ہے، پنجاب میں صدر کو تاریخ دینے کا حکم قانون کے مطابق نہیں، کیوں کہ صدر آزادانہ طور پر کوئی فیصلہ کرنے کے مجاذ نہیں، ان کو تاریخ دینے کا حکم دینا خلاف آئین ہے، صدر ہرکام میں کابینہ کی ایڈوائس کا پابند ہے، الیکشن ایکٹ میں صدر کو اختیار صرف عام انتخابات کیلئے ہے، اور ملک بھر میں عام انتخابات ایک ساتھ ہی ہونےہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن کا استدعا کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز کے فیصلے نے 184/3 کے مقدمات پر سماعت سے روکا، چیف جسٹس سے درخواست کرتا ہوں تنازع حل کیا جائے، 184/3 تنازع حل کرنے تک مقدمے پر سماعت روکی جائے، جسٹس فائزعیسی کے فیصلے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس فائزعیسی سے پرسوں ملاقات ہوئی ہے، ان معاملات پر تمام ججزجلد ملیں گے، جسٹس فائزعیسی ملاقات میں کچھ ایشو زہائی لائٹ کیے ہیں، رولز بنانے کیلئے عنقریب فل کورٹ اجلاس بلائیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جسٹس عیسیٰ والے فیصلے کے بعد ایک جج نے معذرت کی، عرفان قادر نے کیس سے متعلق نکات اٹھائے ہیں، آپ نے ایک اہم نکتہ اٹھایا ہے جو میں دوبارہ نہیں اٹھاؤں گا۔
عرفان قادر نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کبھی کبھی تعریف کردیا کریں، سوشل میڈیا پر آپ ٹاپ ٹرینڈ کر رہے ہیں،
چیف جسٹس نے عرفان قادر کو جواب دیا کہ ہم صرف اللہ سے خیر مانگتے ہیں، آپ سوشل میڈیا کی بات کرکے اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔
عرفان قادر نے چیف جسٹس سے کہا کہ آپ اس وقت عوامی چیف جسٹس ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سوشل میڈیا نہیں دیکھتے۔
عرفان قادر نے مؤقف دیا کہ 6 ججز کی رائے کے بعد 3 رکنی بینچ سماعت نہیں کرسکتا، جسٹس اطہر من اللہ نے یہ بھی کہا کہ اسمبلی تحلیل درست تھی یا نہیں، پرویز الٰہی کی آڈیو لیک آئی جو فواد چوہدری سے متعلق تھی، پرویز الٰہی نے کہا فواد چوہدری پہلے گرفتار ہوتے تو اسمبلی نہ ٹوٹتی، پنجاب اسمبلی نہ وزیراعلی نے توڑی نہ گورنرنے۔
عرفان قادر نے کہا کہ جسٹس اعجازالاحسن کو 5 رکنی بینچ میں شامل نہیں کیا گیا تھا، مناسب ہوتا شفافیت کیلئے جسٹس اعجاز کو بینچ میں شامل نہ کیا جاتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو وجہ میں نے سوچ کر بینچ بنایا وہ بتانے کا پابند نہیں ہوں۔
عرفان قادر نے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن کا بہت مداح ہوں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ مداحی پر آپ کا مشکور ہوں۔
چیف جسٹس نے عرفان قادر سے استفسار کیا کہ ریکارڈ سے دکھائیں جسٹس اعجازالاحسن کب بینچ سے الگ ہوئے۔ عرفان قادر نے جواب دیا کہ ایک جج صاحب نے نوٹ میں لکھا جسٹس اعجازالاحسن نے معذرت کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جن ججز نے سماعت سے معذرت کی ان کے حکمنامے ریکارڈ کا حصہ ہیں، بینچ سے کسی جج کو نکالا نہیں جاسکتا یہ قانون کا اصول ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہر مرتبہ ججز کی معذرت کرنے کا آرڈر نہیں ہوتا، کئی مرتبہ 3 ججز اٹھ کر جاتے تھے اور 2 ججز واپس آتے تھے۔ چیف جسٹس نے وکیل سے کہا کہ اس طرح کی تجویز عدالت کو کبھی نہ دیں۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آپ نے عزت سے اپنا دور گزارا ہے، ون مین شوکس کو کہا گیا ہے اس کی وضاحت ضروری ہے۔
چیف جسٹس نے جواباً ریمارکس میں کہا کہ جسٹس قاضی فائز سے پوچھا تھا ”ون مین شو“ کس کوکہا، انہوں نے کہا عمومی بات کی آپ کو نہیں کہا تھا، ماحول پورے ملک کی طرح عدالت اور باہرخراب ہے، ماحول ٹھنڈا کرنے میں اٹارنی جنرل نے مدد نہیں کی، یہ ایشو پارلیمنٹ کوخود حل کرنا چاہیے تھا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر کے دلائل مکمل ہوئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے دلائل سے محظوظ ہوئے ہیں۔
فاروق ایچ نائیک کی دوبارہ استدعا
پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائک نے اجازت مانگی کہ عدالت میں دلائل دینا چاہتا ہوں، پی ڈی ایم کے اعلامیے میں بائیکاٹ کا ذکر نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ بینچ پر اعتماد نہیں ہے تو دلائل کیسے دے سکتے ہیں۔ وکیل کامران مرتضی بھی کیس میں وکالت سےالگ ہو گٸے۔
وکیل مسلم لیگ ن اکرم شیخ نے استدعا کی کہ عدالت کی معاونت کیلئے پیش ہورہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ شیخ صاحب، کامران مرتضیٰ اور فاروق نائیک کا احترام کرتے ہیں، حکومت میں شامل جماعتوں نے 3 رکنی بینچ پرعدم اعتماد کیا ہے، آپ ذاتی حیثیت میں نہیں آئے، جماعتوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ کا وکالت نامہ ذاتی حیثیت میں نہیں ہے، عدالتی عملے نے ن لیگ کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے اعلامیہ نکال کر دیا ہے۔
وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ میں دلائل نہیں دے سکتا تو کیا آرٹیکل لکھوں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تحریری معروضات دے دیں جائزہ لے لیں گے۔ وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ خود کو مزید شرمندہ نہیں کرسکتا۔
وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ میں گورنر کا بھی وکیل تھا سیاسی جماعت کا بھی، مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے گورنر کی وکالت چھوڑ رہا ہوں۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئین سے بالاتر کوئی کام نہیں کرسکتا۔ الیکشن کمیشن اپنے طور پر انتخابات کی تاریخ تبدیل نہیں کر سکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئین اور قانون واضح ہے انتخابات کی تاریخ کون دے گا، کیا صدر الیکشن کی تاریخ ایڈوائس کے بغیر دے سکتے ہیں، عدالت آئین اور قانون کے مطابق انصاف کے لیے بیٹھی ہے، سیاسی مقدمات میں سیاسی ایجنڈا سامنے آتا ہے، اکرم شیخ تیاری سے آئے تھے ان کے موکل نے ان کو بولنے نہیں دیا، اکرم شیخ کے موکل کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے اس نقطے پر گفتگو نہیں کی، ان سے گلہ ہے کہ وہ 3/4 پر ہی زور دیتے رہے، اس نقطے پر اپنے تحریری دلائل جمع کروائیں۔
عدالت نے کیس پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جو کل سنایا جائے گا۔
چیف جسٹس نے اپنے آخری ریمارکس میں کہا کہ انتخابات کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے بھی آگاہ نہیں کیا گیا، عدالت نے توازن قائم کرنا ہوتا ہے، حکومت اور دیگر فریقین کی درست معاونت نہیں ملی، اور حکومت نے الیکشن کرانے کی آمادگی ہی نہیں ظاہر کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں عدالت اسمبلی کی تحلیل کالعدم قرار دے چکی ہے، ماضی میں حالات مختلف تھے، ملک میں کوئی سیاسی مذاکرات نہیں ہو رہے، رکاوٹوں سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی تھی۔
مزید پڑھیں: مجھے کہا جا رہا ہے کہ ایک جج کوسزا دوں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال
سپریم کورٹ کا بینچ ٹوٹ گیا
اس سے قبل 31 مارچ کو انتخابات سے متعلق کیس کی ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ کا 4 رکنی بینچ بھی ٹوٹ گیا تھا، جس کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 3 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔
3 رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس یحیٰ آفریدی کے اختلافی نوٹس
دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ کل اور آج 2 ججز نے سماعت سے معذرت کی، ججز کے آپس میں تعلق اچھے ہیں، اعتراف اور شائستہ گفتگو پہلے اور بعد میں بھی ہوئی۔
چیف جسٹس نے مزید کہا تھا کہ کچھ نقاط پر ہماری گفتگو ضروری ہے، سیاسی معاملات پر میڈیا اور پریس کانفرنسز سے تیل ڈالا گیا، عدالت نے سارے معاملے پر تحمل کا مظاہرہ کیا، کچھ لوگ چند ججز پر تنقید کررہے ہیں، ہم اس معاملے کو بھی دیکھیں گے۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت پیر ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی تھی۔
اس سے قبل پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات میں التوا کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ 3 روز سے سماعت کررہا تھا۔
30 مارچ بروز جمعرات کو چوتھی سماعت پر 5 رکنی لارجر بینچ کے رکن جسٹس امین الدین بینچ سے الگ ہو گٸے تھے جس کے بعد سپریم کورٹ نے سماعت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔
پانچوں سماعت پر جسٹس جمال مندوخیل نے بھی کیس سننے سے معذرت کرلی تھی۔
پی ٹی آئی درخواست کی سماعت کا بینچ اب تک 2 بار ٹوٹ چکا ہے، گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ کے بینچ نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کی تھی۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر اور الیکشن کمیشن کے وکیل اپنے اپنے دلائل مکمل کرچکے ہیں۔
اب اٹارنی جنرل، نگران حکومت پنجاب اور گورنرخیبرپختونخوا حاجی غلام علی کے وکلاء دلائل دیں گے۔
پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جے یوآئی (ف) نے فریق بننے اور فل کورٹ کی استدعا کررکھی ہے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ کے باہر بھاری سیکیورٹی نفری تعینات کردی گئی۔
سپریم کورٹ بلڈنگ کے باہر پولیس، ایف سی اور رینجرز تعینات ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے اظہار یکجہتی کے لئے وکلاء سپریم کورٹ کے باہر پہنچ گئے۔
کسی بھی غیرمتعلقہ شخص کے سپریم کورٹ میں داخلے پر پابندی ہے جبکہ وکلاء، صحافیوں اور سائلین کو عدالت میں جانے کی اجازت ہے۔
اسلام آباد کیپیٹل پولیس نے سپریم کورٹ میں الیکشن التوا کیس کی کل سماعت کے لئے اہم ہدایات جاری کردیں۔
ترجمان اسلام آباد پولیس کے مطابق آج سپریم کورٹ میں وہی افراد داخل ہوسکیں گے جن کے مقدمات زیر سماعت ہوں گے یا جن کو سپریم کورٹ انتظامیہ کی طرف سے اجازت نامہ جاری ہوگا۔
ترجمان اسلام آباد پولیس نے بتایا کہ قانون کا احترام سب پر لازم ہے اور اس کا نفاذ برابری کی سطح پر کیا جائے گا۔
ترجمان نے عوام سے اپیل کی کہ ریڈ زون میں تعینات پولیس اور دیگر معاون قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کریں، شہری کسی بھی مشکوک سرگرمی کے متعلق اطلاع پکار 15 پر دیں۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات پر حکومت اور اپوزیشن کا اختلاف برقرار ہے جبکہ حکومت نے سپریم کورٹ میں آج ہونے والی سماعت سے متعلق اہم فیصلہ کرلیا۔
ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ کیا گیا کہ آج سماعت میں اگر فل کورٹ کی استدعا مسترد ہوئی تو حکومت عدالتی بائیکاٹ کرے گی۔
اٹارنی جنرل اور سیاسی جماعتوں کے وکلا بینچ پر اعتراضات اٹھائیں گے۔
حکومتی اتحاد میں شامل 3 بڑی جماعتیں چیف جسٹس سے فل کورٹ بنانے کی استدعا کریں گی۔
بینچ سے جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس امین الدین خان پہلے ہی علیحدہ ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب تحریک انصاف بھی میدان میں کود چکی ہیں، ہم خیال سیاسی جماعتوں سے رابطے تیز کرنے کا فیصلہ کرلیا۔