غداری کے سیکڑوں سال پرانے قانون کو ملک کے آئین سے متصادم قرار دئے جانے پر بھارت میں لاہور ہائیکورٹ کے چرچے شروع ہوگئے ہیں، اور کہا جارہا ہے کہ اگر پاکستان ایسا کر سکتا ہے تو ہماری عدالت کیوں نہیں؟
بھارتی خبر رساں ادارے ”ٹائمز آف انڈیا“ میں شائع ایڈیٹوریول میں کہا گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ پاکستان کے غداری کے قانون کو ملک کے آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے اسے ختم کرنے پر تعریف کی مستحق ہے۔ اس ترقی پسند اقدام سے ہمیں بھی متاثر ہونا چاہیے۔
ٹائمز آف انڈیا میں شائع مضمون میں کہا گیا کہ ’اکتوبر 2022 میں، ہماری (بھارتی) سپریم کورٹ نے مرکز کو نوآبادیاتی قانون کا جائزہ لینے کے لیے اضافی وقت دیا، اور مرکز سے کہا کہ وہ دفعہ 124اے کے تحت کوئی نئی ایف آئی آر درج نہ کرے۔ یہ مئی 2022 کے سپریم کورٹ کے حکم کی پیروی تھی جس نے متنازع بغاوت کے قانون کو لگام ڈالی۔
مضمون کے مطابق ’پاکستان میں بھی ہندوستان کی طرح بغاوت کا قانون برصغیر کے لیے نوآبادیاتی تعزیرات کے ضابطے کی میراث ہے، انڈین پینل کوڈ 1860 کا سیکشن 124A بغاوت سے متعلق ہے جو 1870 میں ایک ترمیم کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔‘
’شروع سے ہی، دفعہ 124A کا استعمال نوآبادیاتی مخالف آوازوں کے خلاف کیا گیا جن کے خلاف کوئی اور الزام نہیں لگایا جا سکتا تھا۔ یہ قانون 156 سال تک زندہ رہنے کا ثبوت ہے کہ پاکستان اور یہاں تک کہ مستقل طور پر جمہوری ہندوستان میں بھی یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے آزادی رائے کو کس نظر سے دیکھا ہے۔‘
مضمون میں کہا گیا کہ ’کئی دہائیوں کے دوران اس قانون کا استعمال مخالفین، صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، اور یہاں تک کہ طلبہ مظاہرین سمیت ناقدین کو ڈرانے اور خاموش کرنے کے لیے کیا جاتا رہا ہے۔‘
’پاکستان میں موجودہ سیاسی بحران میں، لاہور ہائی کورٹ کا بغاوت کے قانون کی تشریح کرنا تاریخی ہے۔ اس سے عمران خان پر بھی بوجھ ہلکا ہوتا ہے۔‘
بھارتی مضمون میں کہا گیا کہ ’ہماری سپریم کورٹ کو حکومت کو مزید اگر مگر کی اجازت نہیں دینی چاہئیے۔ بغاوت کے قانون کو اکھاڑ پھینکیں۔ یہ ایک ایسا قانون ہے جس میں جرم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ایک غلط قانون ہے جو غلط لوگوں کو غلط وجوہات کی بنا پر سزا دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘
30 مارچ جمعرات کو لاہور ہائی کورٹ نے نوآبادیاتی دور کے بغاوت کے قانون کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے ختم کر دیا تھا، جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر تنقید کو جرم قرار دیتا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 124-A کو کالعدم قرار دیا۔جسٹس کریم نے بغاوت کے قانون کو منسوخ کرنے کی ایک جیسی کئی درخواستوں پر فیصلہ سنایا۔
ہارون فاروق نامی ایک شہری کی طرف سے دائر کی گئی درخواستوں میں سے ایک میں، جو کہ دیگر تمام درخواستوں سے مماثلت رکھتی تھی، عدالت سے پی پی سی کے سیکشن 124-A کو ”آئین کے آرٹیکل 8 کے مطابق الٹرا وائرس (ایک لاطینی اصطلاح جو قانون میں کسی ایسے عمل کی وضاحت کے لیے استعمال ہوتی ہے، جس کے لیے قانونی اختیار کی ضرورت ہو لیکن وہ اس کے بغیر ہوئی ہو) قرار دینے کی استدعا کی گئی۔ جو کہ آئین کے آرٹیکل 9، 14، 15، 16، 17 اور 19، 19 اے کے تحت فراہم کردہ بنیادی حقوق کے منافی ہے۔“
یہ قانون کہتا ہے کہ ”جو بھی وفاقی یا صوبائی حکومت کے خلاف الفاظ کے ذریعے، بولے یا لکھے، یا اشاروں کے ذریعے، یا ظاہری نمائندگی کے ذریعے، یا کسی اور طرح سے، نفرت یا حقارت پھیلانے کی کوشش کرتا ہے، یا جوش یا نفرت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، اسے قانون کے ذریعے قائم کی گئی سزا عمر قید کے ساتھ دی جائے گی جس میں جرمانہ کا اضافہ کیا جا سکتا ہے، یا قید جو کہ تین سال تک ہو سکتی ہے، جس میں جرمانہ کا اضافہ کیا جا سکتا ہے، یا صرف جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔“
درخواست میں استدلال کیا گیا کہ بغاوت ایکٹ 1860 میں نافذ کیا گیا تھا جو کہ برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کی علامت ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ یہ قانون غلاموں کے لیے استعمال کیا گیا جس کے تحت کسی کی بھی درخواست پر مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ پاکستان کا آئین ہر شہری کو اظہار رائے کی آزادی کا حق دیتا ہے لیکن اس کے باوجود حکمرانوں کے خلاف تقاریر کرنے پر دفعہ 124 اے لگائی جاتی ہے۔
پٹیشن کے مطابق پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت دی گئی آزادی اظہار رائے کے حق کو روکنے کے لیے قانون کو استحصال کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ یہ قانون ”آزاد اور خودمختار پاکستان میں اختلاف رائے، آزادی اظہار اور تنقید کو دبانے کے لیے ایک بدنام ہتھیار“ کے طور پر کام کر رہا ہے۔
درخواست میں دلیل دی گئی کہ پچھلے کچھ سالوں میں مختلف سیاستدانوں، صحافیوں اور کارکنوں کے خلاف دفعہ 124-A کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔