Aaj Logo

اپ ڈیٹ 01 اپريل 2023 11:28pm

سپریم کورٹ میں چل رہا انتخابات کا پیچیدہ معاملہ، 5 سالہ بچی کی سمجھ کیلئے آسان الفاظ میں

حالانکہ میں ایک نیوز روم میں کام کرتی ہوں، اس کے باوجود مجھے بھی نہیں معلوم کہ سپریم کورٹ میں چل کیا رہا ہے۔ ایک طرف جہاں مجھے پرواہ نہیں تو دوسری طرف مجھے مکمل معلومات نہ ہونے پر تھوڑا بیوقف سا بھی محسوس ہوتا ہے۔

ہر روز پرجوش رپورٹرز بیپر دیتے ہیں، لیکن محسوس ایسا ہوتا ہے جیسے وہ دوسرے صحافیوں سے بات کر رہے ہوں۔

شام کے وقت ٹاک شوز سپریم کورٹ کے حوالے سے مباحثے کی میزبانی کرتے ہیں، لیکن یوں لگتا ہے جیسے وہ بھی رٹی رٹائی گفتگو کر رہے ہوں۔

ہماری ٹی وی اسکرینوں پر چھوٹی چھوٹی پیشرفتیں سرخ خانوں میں رقص کرتی ہیں، لیکن یہ بتانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ یہ بڑھتے ہوئے معاملات ہماری زندگی پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔

یوں معلوم ہوتا ہے جیسے سب کو پتا ہے سوائے میرے۔ لیکن اب اس سے میرا سر درد کرنے لگا ہے۔

میں عام طور پر ان معاملات میں نہیں پڑتی، لیکن ٹویٹر پر ہمارے تین قارئین @waniaaijaz_، @EliHk2 اور @pindhfloyd چاہتے تھے کہ اس کی وضاحت اس طرح کی جائے جیسے وہ پانچ سال کے بچے ہوں۔

اس کیلئے میں نے قابل وکیل اسامہ خاور گھمن (@UsamaKhawar) جو لمز یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم دیتے ہیں، ان سے التجا کی کہ اس کی وضاحت اس طرح کریں گویا میں ایک چھوٹی سی بچی ہوں۔

انہوں نے جو کچھ کہا وہ میں نے ذیل میں انتہائی سہل الفاظ میں بیان کیا ہے۔

تو یہاں سپریم کورٹ میں جو کچھ چل رہا ہے وہ آپ کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔

(تاہم، یہ صرف جمعہ 31 مارچ تک کی پیشرفت تک سمجھانے کیلئے ہے، اس میں مزید بہت کچھ ہونے کی توقع ہے اور میں بیچ بیچ میں اسے اپڈیٹ کرتی رہوں گی۔

مختصراً کہیں تو اب تک:

  • الیکشن نہیں ہو رہے یا کروائے جارہے اس لیے معاملہ سپریم کورٹ میں جاپہنچا۔
  • چیف جسٹس نے کیس کی سماعت کے لیے 9 ججز کا انتخاب کیا۔
  • اس پر بہت اختلاف ہوا کہ انہوں نے کس کو منتخب کیا اور کس کو چھوڑ دیا۔
  • آڈیو لیک ہونے کی وجہ سے ججز کے خلاف سنگین رشوت ستانی کی باتیں ہوئیں۔
  • کچھ ججز نے فیصلے دیے، کچھ نے ان کی حمایت کی۔
  • جیسے ہی چیف جسٹس نے کچھ ججز کو ہٹایا اکثریتی ووٹ کا حساب گڑبڑ ہوگیا۔

لمبا لیکن آسان ورژن

اس سیکشن میں قاری کی رہنمائی کیلئے رنگین گیندوں کا استعمال کیا گیا ہے۔

🟣 ججز کے اصل سیٹ کے لیے ہے (میں نے تمام رنگوں کا انتخاب بے ترتیب طور پر کیا ہے)۔

کہانی کے آگے بڑھتے بڑھتے یہ 🟣 گیندیں اپنا رنگ 🟡 🟢 🔵 🔴میں بدلیں گی۔

سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبر پختونخوا (کے پی) میں انتخابات نہ ہونے سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے۔ الیکشن کمیشن نے ان انتخابات کے انعقاد سے انکار کر دیا ہے جو کہ ہماری جمہوریت کے لیے بڑا عجیب ہے۔

اس سے پہلے پی ٹی آئی، پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے باسز یعنی اسپیکرز سمیت پی ٹی آئی کے کئی لوگوں نے مختلف عدالتوں میں درخواستیں دائر کیں کہ الیکشن نہیں ہو رہے۔ سب غصے میں ہیں کہ الیکشن نہیں ہو رہے۔

اسی دوران، دوسری جگہ سپریم کورٹ کے 2 ججز (🟡🟡) کچھ پولیس والوں کے حوالے سے ایک کیس کی سماعت کر رہے تھے۔

یہ کیس اس بارے میں تھا کہ کیا پنجاب کی عارضی حکومت ان کا تبادلہ کر سکتی ہے؟

(نگران حکومتیں آیاؤں کی طرح ہوتی ہیں جو ممی اور ڈیڈی کے گھر آنے تک صوبے کا خیال کرتی ہیں)

لیکن ان 2 (🟡🟡) ججز نے فیصلہ کیا کہ وہ ان انتخابات کے نہ ہونے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔

انہوں نے اپنے خیالات 🧠 اور احساسات 🧐 سے بھرپور ایک نوٹ چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھا اور اس بارے میں کچھ کرنے کی درخواست کی۔

چیف جسٹس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس پر کچھ کریں گے۔ چیف جسٹس کی زبان میں اسے ”سوموٹو“ کہتے ہیں۔

ججز لاطینی زبان میں بات کرنا پسند کرتے ہیں لہٰذا سو موٹو “ازخود “ کہنے کا ایک غیر انگریزی طریقہ ہے۔

چنانچہ سپریم کورٹ نے انتخابی سوال پر خود ہی سماعت شروع کردی۔ یاد رہے کہ اسی مسئلے پر درخواستیں دوسری عدالتوں میں بھی چل رہی تھیں۔

سوموٹو لینے پر چیف جسٹس کو اپنا کیس سننے کے لیے خود ججز کا انتخاب کرنا پڑا۔

مقدمات کی سماعت کے لیے منتخب کیے گئے ججز کے گروپ کو ”بینچ“ کہا جاتا ہے، جو ہمیں بتاتے ہیں کہ کرنا کیا ہے۔

چیف جسٹس نے ازخود نوٹس کیس کے لیے 9 (🟣🟣🟣🟣🟣🟣🟣🟣🟣) ججز کا انتخاب کیا۔

ان 9 (🟣🟣🟣🟣🟣🟣🟣🟣🟣) میں انہوں نے خود کے ساتھ ان 2 (🟡🟡) ججز کو بھی منتخب کیا جنہوں نے انہیں اپنے جذبات سے آگاہ کیا تھا، ساتھ ہی چند دوسرے ججز بھی بینچ میں شامل کئے گئے۔

لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سے نیچے (کیونکہ وہ سب سے سینئر ہیں) سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججز کا انتخاب نہیں کیا۔

اسے عجیب سمجھا گیا اور بہت سارے سوالات نے جنم لیا کہ:

  • یہ ازخود نوٹس، پولیس والوں کے کیس کی سماعت کرنے والے دو ججز ( 🟡🟡) کیتجویز پر کیوں لیا گیا؟ انہوں نے انتخابات میں دلچسپی کیوں لی جو کہ ایکسیاسی معاملہ ہے؟
  • چیف جسٹس نے ان دو ججز ( 🟡🟡) کو بینچ میں کیوں شامل کیا جو پہلے ہی بتاچکے تھے کہ وہ انتخابات کے حوالے سے کیا محسوس کرتے ہیں (ان کے مطابق 90دن کے اندر انتخابات کا انعقاد نہ کرنا غیر آئینی ہے)۔ اس کا مطلب ہے کہوہ پہلے ہی اپنی رائے دے چکے تھے حالانکہ اس معاملے پر بحث کے لیے کوئیسماعت نہیں ہوئی تھی۔
  • چیف جسٹس نے اس کیس کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ کے 2 سینئر ترین ججوں کاانتخاب کیوں نہیں کیا؟

چیف جسٹس نے اس تنقید کا کوئی جواب نہیں دیا، اور ازخود نوٹس کی سماعت شروع ہو گئی۔

پھر بنچ میں موجود دیگر 🟣 ججز بھی بول پڑے۔

انہوں نے وہی سوالات اٹھائے۔ لیکن ان دیگر ججوں نے سخت قانونی زبان استعمال کی۔

عام طور پر جج ایک دوسرے کے بارے میں اچھی بات کرتے ہیں۔ وہ ”برادر جسٹس“ اور ”برادر جج“ جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ 😇

معاملات مزید بدتر کب ہوئے

 یہ سب کچھ جاری تھا کہ سوشل میڈیا لیک آڈیوز سے بھر گیا۔

ان آڈیو لیکس میں 2 (🟡🟡) ججوں کے نام تھے۔ ایک آواز پنجاب کے دوسرے سب سے اہم عہدیدار کی تھی جو وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کے قریبی آدمی تھے۔

انہوں نے ان 2 (🟡🟡) ججوں کے خلاف خوب ہرزہ سرائی کی اور انہیں برا بھلا کہا، مثلاً ان ججز میں سے ایک نے پیسے لیے۔

ایک اور لیک میں رشوت لینے والے جج کی طرف اشارہ کیا گیا۔

ایک لیک میں کہا گیا ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی ایک جج سے ملنے گئے تھے (جو کہ بالکل بھی مناسب نہیں)۔ انہوں نے اس کی تردید نہیں کی۔

جب اس طرح کی بری چیزیں سامنے آتی ہیں تو چیف جسٹس ججز کے خلاف شکایات سننے کے لیے پرنسپل آفس (جسے سپریم جوڈیشل کونسل کہا جاتا ہے) سے رابطہ کر سکتے ہیں۔

لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے صرف ایک (🟡) جج سے رابطہ کیا جنہوں نے کہا کہ میں نے کچھ نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انہیں اس پر یقین ہے۔

اب دوسرے (🟣) ججز پریشان ہونے لگے تھے کہ چیف جسٹس اس پر کچھ کیوں نہیں کر رہے؟ ان کی نوکری کی ساکھ داؤ پر لگ گئی۔

چیف جسٹس کو ”خاندان یا گھر کے سربراہ“ کے طور پر جانا جاتا ہے، یا جیسا کہ ججز کی پسندیدہ زبان لاطینی میں کہیں تو وہ Pater Familias ہوتے ہیں۔ ان کا کام (ماریو پوزو ناول کے کسی موضوع کی طرح) خاندان کی عزت کی حفاظت کرنا ہے۔

پھر سوموٹو سماعتوں کے دوران کچھ ایسا عجیب ہوتا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔

عام طور پر، ہر روز عدالتی کارروائی کے بعد کاغذ کا ایک ٹکڑا جسے ”عدالتی حکم“ (جوڈیشل آرڈر) کہا جاتا ہے جاری کیا جاتا ہے، جس میں درج ہوتا ہے کہ دن بھر کیا ہوا۔

جج کورٹ کلرک کو لکھواتے ہیں ✍️ کہ کیا کارروائی ہوئی اور وہ اسے ٹائپ کرتے ہیں۔ کچھ جج اگر کہی گئی بات سے متفق نہ ہوں تو اس میں ”اختلافی نوٹ“ بھی شامل کر سکتے ہیں۔

لیکن اس دن کوئی آرڈر جاری نہیں ہوا، گھنٹوں دلائل ہوتے رہے لیکن کوئی حکم نہ آیا۔

ان سو موٹو سماعتوں کے بعد لوگوں نے سوچا کہ شاید کل آرڈر دیا جائے گا۔

اگلے دن سماعت ہوئی اور پھر بھی کوئی آرڈر نہیں ہوا۔

تیسرے دن آرڈر آیا لیکن لوگوں نے پوچھا کہ پہلے اور دوسرے دن کا کیا آرڈر ہے؟

دو آرڈر غائب ہو چکے تھے۔

تیسرے دن آرڈر میں کہا گیا کہ چونکہ ان دونوں (🟡🟡) ججز کے بارے میں نازیبا باتیں کہی گئی تھیں اس لیے انہوں نے خود کو بینچ سے الگ (Recuse) کر لیا ہے۔

ریکیوزل تب ہوتاہے جب ایک جج کہتا ہے کہ وہ کیس نہیں سننا چاہتا۔

🟣🟣🟣🟣🟣🟣🟣🟣🟣

اب 9 میں سے 2 گئے ، بچے 7۔

🟣🟣🟣🟣🟣🟣🟣🟡🟡

اسی دن ماندہ سات میں سے دو (🟢🟢) ججز نے کہا کہ الیکشن کیس کی سماعت نہیں ہونی چاہیے۔ چیف جسٹس نے انہیں ہٹا دیا۔

🟣🟣🟣🟣🟣🟣🟣🟣🟣

🟣🟣🟣🟣🟣🟣🟣🟡🟡

🟣🟣🟣🟣🟣🟢🟢🟡🟡

یعنی اب 9 کے بینچ سے پہلے دو خود گئے اور دو مزید کو الگ کردیا گیا، اب بچے 5 ججز۔

ہٹائے گئے (🟢) ججز میں سے ایک نے ایسی بات کہہ دی جو پہلے کبھی نہیں سنی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ کچھ چیزیں جو انہوں نے کہیں وہ دن کے آرڈر میں شامل نہیں کی گئی ہیں۔

انہوں نے بنیادی طور پر چیف جسٹس پر اس حکم کو تبدیل کرنے کا الزام لگایا جو کھلی عدالت میں دیا گیا تھا۔

(ان کے مطابق انہوں نے کھلی عدالت میں یہ سوال اٹھایا کہ ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ یہ اسمبلیاں پہلے کیوں برخاست کی گئیں؟ کیا ایک آدمی جو وزیر اعلیٰ یا رکنِ اسمبلی رکن (عمران خان) بھی نہیں اس پر اصرار کر رہا تھا؟ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ وزیر اعلیٰ صبح اٹھیں اور صرف اس وجہ سے کہ انہیں ڈھنگ کی کافی نہیں ملی، پوری منتخب اسمبلی کو باہر پھینکنے کا فیصلہ کرلیں کیونکہ آئین انہیں یہ اختیار دیتا ہے؟ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کیا ان اختیارات کی کوئی حد ہے؟)

یہ بے نظیر تھا، گھر کے سربراہ پر بے ایمانی کا الزام لگایا جا رہا تھا، تو چیف جسٹس نے انہیں 🟢 ہٹا دیا۔

اب ذرا حساب لگائیں تو 9 ججوں کے اصل بنچ میں سے صرف 5 رہ گئے اور ازخود نوٹس کی سماعت جاری رہی۔

پھر، 5 میں سے 3 (🔵🔵🔵) ججز نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انتخابات کرانا چاہئیں۔

🟣🟣🟣🟣🟣🟣🟣🟣🟣

🟣🟣🟣🟣🟣🟣🟣🟡🟡

🟣🟣🟣🟣🟣🟢🟢🟡🟡

🟣🟣🔵🔵🔵|🟢🟢🟡🟡

🔴🔴🔵🔵🔵|🟢🟢🟡🟡

پانچ میں سے دو (🔴🔴) ججز نے اس سے انکار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں سیاست میں نہیں آنا چاہیے۔ اس کے علاوہ، یہ سوموٹو بلا جواز ہے کیونکہ دیگر عدالتیں پہلے ہی درخواستوں کی سماعت کر رہی تھیں۔

وہ اس بات پر بھی ناخوش تھے کہ کس طرح کچھ ججز کو منتخب کیا گیا اور کچھ کو مدعو نہیں کیا گیا۔ وہ رشوت والی بات پر بھی پریشان تھے۔

لیکن سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دو (🔴🔴) ججز نے کہا کہ وہ اپنے دو (🟢🟢) ”برادر ججز“ سے متفق ہیں جنہوں نے پہلے فیصلہ کیا تھا کہ اس سوموٹو الیکشن کیس کی سماعت نہیں ہونی چاہیے (وہ 2 جج یاد ہیں جنہیں ہٹا دیا گیا تھا؟)۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا حکم اور ان کا حکم ایک ہی ہے۔ اس طرح اب زیادہ گیندیں سبز ہو جاتی ہیں۔

تو ایسا لگتا ہے کہ ججز کی اکثریت ایک ذہن کی تھی۔ لیکن یہ زندگی کی طرح ہی پیچیدہ ہے۔

🔵🔵🔵|🟡🟡🟢🟢🟢🟢

یہ وہ بڑی بحث ہے جو آپ اور میں ٹی وی پر اور ٹاک شوز میں سنتے رہے ہیں۔

یہ سب معاملہ حساب کتاب کا ہے۔

آپ 7 ججز کے دیمک لگے بینچ (کیونکہ 9 میں سے 2 کو ہٹا دیا گیا تھا) میں اکثریتی ووٹ (4-3) کیسے گن سکتے ہیں؟ اور جب ان میں سے کچھ دوسروں کی باتوں سے اتفاق کرتے ہیں تو آپ کیا کرتے ہیں۔ آپ ٹوٹل اور اکثریت کیسے گنتے ہیں؟

اس سارے پیچیدہ منظر نامے کو اتنے آسان الفاظ میں پیش کرنے کی کوشش کرنے پر آپ کو مجھے معاف کرنا پڑے گا۔

بے شک یہ وضاحت معاملے کی سنگینی کے ساتھ انصاف نہیں اور اس سے سپریم کورٹ یا اس کے ججز کی بے عزتی کا ہرگز مقصد نہیں ہے۔

لیکن میں سمجھتی ہوں کہ یہ پوری کہانی کتنی پیچیدہ ہے اور میں دوسروں کی مدد کرنا چاہتی ہوں کہ وہ بھی سمجھیں ہو کیا رہا ہے۔

اس طرح میں اپنے دوسرے سوال کے ساتھ دوبارہ ہمارے مددگار وکیل کے پاس جاپہنچی۔

میں نے اسامہ خاور گھمن سے پوچھا: اس کا آپ پر اور مجھ پر کیا اثر ہوتا ہے؟ یہ ایسا تو بالکل نہیں ہے کہ بس کچھ لوگ آپس میں لڑ رہے ہوں، ہمیں اس بات کو سمجھنے کی کوشش میں وقت کیوں صرف کرنا چاہیے؟

وہ متفق تھے کہ ایسا لگتا ہے جیسے بس یہ کچھ لوگوں کا آپسی جھگڑا ہے، لیکن اس کے ہم پر بھی حقیقی نتائج رونما ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس ناقابل یقین حد تک اہم ہیں۔ اسٹار پلس جیسے اس ڈرامے کے پیچھے ایک طویل عرصے سے جاری بے اطمینانی ہے۔ جمہوریت پر اس کے سنگین اثرات ہیں۔ ہمارے آئین میں سپریم کورٹ حتمی ادارہ ہے، یا یوں کہیں کہ سب سے زیادہ طاقتور ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ آئین کیا کہتا ہے۔ اگر سپریم کورٹ کہتی ہے کہ وزیر اعظم کو گھر جانے کی ضرورت ہے، تو وہ کہہ سکتی ہے کہ آئین یہ کہتا ہے، چاہے آئین کچھ نہ کہے۔ سپریم کورٹ کہتی ہے تو یہ ہو جاتا ہے۔ دراصل سپریم کورٹ نے 2 وزرائے اعظم کو ہٹایا ہے۔ سپریم کورٹ پوری پارلیمنٹ کو گھر بھیج سکتی ہے۔ اور آخر میں اس سب کے معاشی نتائج ہوتے ہیں۔ اس کا اثر پاکستان کے ہر گھر پر ہوتا ہے۔

ہمارے ڈپٹی ایڈیٹر عارف انجم کا پوسٹ اسکرپٹ جو میرے تھکنے کی صورت میں ذمہ داری سنبھالتے ہیں۔

جب ججز اپنا حساب درست کرنے کی کوشش کر رہے تھے، پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ وہ انتخابات کے انعقاد سے متعلق اپنے فیصلے کو نافذ کرے۔

پی ٹی آئی نے ایک درخواست دائر کی جس کی سماعت اس ہفتے کے لیے مقرر کی گئی تھی۔ چیف جسٹس نے اس بار پانچ رکنی بینچ کا انتخاب کیا۔

جمعرات اور جمعہ کو، اس پانچ رکنی بنچ کے دو ججز نے یہ کہتے ہوئے خود کو الگ کر لیا کہ ان کا خیال ہے سپریم کورٹ کو پی ٹی آئی کی پٹیشن کو اس وقت تک نہیں سننا چاہیے جب تک کہ وہ پہلے کے فیصلے پر صحیح حساب نہ کر لے (یہ سوال کہ یہ 4-3 کا فیصلہ تھا یا 3-2 فیصلہ)۔

لیکن چیف جسٹس نے باقی تین ججز کے ساتھ کیس سننے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے ایک فل کورٹ بنانے کی حکومتی درخواست کو بھی مسترد کر دیا جس میں سپریم کورٹ کے تمام جج شامل ہو سکتے ہیں۔

Read Comments