میں اکثر سنتی تھی کہ گورنر ہاوس صرف ”بہت بڑے لوگ“ جاسکتے ہیں کسی عام انسان کو دروازے پر بھی رکنے نہیں دیا جاتا (بیٹا) میں تو اب 60 سال سے زیادہ کی ہوں خواہش تھی کہ مرنے سے پہلے ایک بار گورنر ہاوس اندر سے دیکھ لوں لیکن کیسے دیکھتی مجھ جیسے غریب لوگ تو اتنی بڑے سڑک پر بھی نہیں آسکتے یہ تو ایوان صدر ہے یہاں تو بس یا رکشہ بھی کم ہی دکھائی دیتا ہے اس روڈ پر ہم بھی نہیں آتے کیونکہ ہمارا یہاں کوئی کام ہی نہیں اور پھر (بس) تو یہاں قریب میں آتی بھی نہیں۔
یہ باتیں مجھے ایک عمر رسیدہ خاتون نے کہیں جب میں ساتویں روزےکو گورنر ہاوس میں افطار کرنے کے لیے گیا، افطار کرنے کے بعد میں نے ایک خاتون کو دیکھا جو کبھی اسکول کے بچوں کی طرف جاتیں، کبھی غور سے اوپر دیکھتیں اور کبھی کسی ٹیبل کے پاس آکر رک جاتیں۔میں نے جاکر ان سے سلام دعا کی اور اپنا تعارف کروایا تو وہ کچھ ڈر سی گئیں کہنے لگیں آپ میڈیا والے ہو کسی کو بتادوگے کیونکہ میں تو اپنے محلے کے کچھ لوگوں کے کہنے پر یہاں آگئی ہوں مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہاں میڈیا والے بھی آتے ہیں میں نے انھیں کہا کہ اماں آپ بے فکر رہیں اب تو یہاں کوئی بھی آسکتا ہے میں تو آپ سے یہ پوچھنے آیاتھا کہ آپ کو یہاں آکر کیسا لگ رہا ہے۔
پھر وہ بولیں کہ بیٹا مجھے تو اب بھی حیرت ہو رہی ہے کہ میں واقعی گورنر ہاوس کے اندر ہوں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ اپنا نام تو بتادیں تو کہنے لگیں نہیں تم ٹی وی پر چلاؤگے میں نہیں بتارہی ویسے سب مجھے محلے میں ”بانو خالا“ بلاتے ہیں، مجھے گلی کے بچوں نے بتایا کہ ہم اسکول کے سارے بچے کل گورنر ہاوس میں افطاری کریں گے تو میں نے کہا مجھے بھی لے چلو مجھے بھی گورنر ہاوس دیکھنا ہے تو انہوں نےکہا خالا اب تو ٹی وی پر بتا رہے ہیں کہ شناختی کارڈ دکھا کر آپ وہاں افطار کرسکتے ہیں تو میں بھی یہاں پہنچ گئی جہاں میں بہت بڑے لوگوں کو قریب سے دیکھا۔
اب واقعی کراچی میں قائم سندھ کا گورنر ہاوس ایک مکمل ”پبلک پلیس“ نظر آرہا ہے، وہ گاڑیاں جن کا ایوان صدر روڈ پر داخلہ ممنوع ہوا کرتا تھا یعنی بسیں، رکشہ، موٹر سائیکل یہ سب اور دیگر گاڑیاں اب افطار سے پہلے بڑی تعداد میں گورنر ہاوس کے دروازے کے اندر اور باہر نظر آرہی ہیں کیونکہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے گورنر ہاوس کے دروازے عام عوام کے لیے کھلوا دئیے ہیں۔
گورنر سندھ سے بات چیت ہوئی تو انہوں نے کہا کہ مجھے یہ آئیڈیا عمران خان سے ملا جنہوں نے ایک کروڑ نوکریاں، پچاس ہزار گھر دینے کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ گورنر ہاوس کو عام لوگوں کے لیے کھولا جائے گا، یہاں طلبا آئیں گے، یونیورسٹی ہوگی لیکن نا جانے ان کی کیا مجبوری تھی کہ وہ گورنر ہاوس کو عوامی بنانے کا وعدہ پورا ہی نہیں کرسکے تو میں نے سوچا کہ اتنا بڑا اسٹار اگر یہ کام نہیں کرسکا تو اب میں خود بحیثیت گورنر یہ کام کر دکھاتا ہوں۔
گورنر سندھ نے کہا کہ اب یہ بات ثابت ہوچکی کہ گورنر ہاوس کی وی آئی پی لسٹ ختم کردی گئی ہے اور عام عوام اہلیان کراچی یعنی منی پاکستان کے لوگ یہاں آرہے ہیں صرف رمضان کی افطار ہی نہیں بلکہ رمضان المبارک کے بعد بھی عام عوام کے وزٹ کرنے کے لیے جامع پلان بنایا جاچکا ہے۔
کامران ٹیسوری نے کہا کہ اس افطار کرانے کے دو مقاصد تھے ایک اللہ کی رضا و خوشنودی اور دوسرا یہ صاحب اقتدار و صاحب حیثیت لوگوں کےلیے پیغام کہ وہ بھی آگے آئیں اور عوام کی خدمت کریں
یہاں میری ملاقات ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر ڈپٹی کنوینئر ڈاکٹر فاروق ستار سے بھی ہوئی انھوں نے کہا کہ گورنر ہاوس کو عوام کےلیے کھولنے کا خواب کسی اور نے دیکھا مگر اسکو پورا کامران ٹیسوری نے کیا یہ صرف عوامی گورنر نہیں بلکہ اب گورنر ہاوس بھی عوام ہوچکا ہے۔
ذرائع بتارہے ہیں کہ کامران ٹیسوری کراچی بنانے اور اس کی روشنیاں لوٹانے کا اہم ٹاسک لے کر میدان میں اترے ہیں وہ بہت تیزی سے اپنے مقصد کے حصول کے لیے سرگرم ہیں۔ انہوں نے سندھ بھر میں ترقیاتی کام اور بنیادی مسائل کے حل کو عملی جامہ پہنانے کی ٹھان لی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ اس سلسلے میں انہیں نہ صرف اپنی جماعت ایم کیو ایم بلکہ دیگر بڑی سیاسی جماعتوں کی حمایت مل چکی ہے، وہ کراچی کی تقدیر کو بدلنے کا مشن لیے سیاسی، سماجی، کاروباری اور دیگر شخصیات سے جو ملاقاتیں کررہے ہیں اس میں انہیں اب تک مثبت جواب ملا ہے۔
صوبہ سندھ اور بالخصوص کراچی جو کہ آج ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، خستہ حال ٹرانسپورٹ، پانی بجلی اور گیس کے بحران سمیت بیشتر بنیادی مسائل میں گھرا ہوا ہے اس شہر کی عوام اس قدر بدظن ہوچکی ہے کہ سیاستدانوں سے شکوے کرنا بھی چھوڑ دئیے ہیں یہاں بسنے والے بیروزگاری، معاشی مشکلات اور اسٹریٹ کرائم جیسی لعنت کا شکار ہورہے ہیں ان مسائل کے حل کے لیے ایک ایسے انسان کا آنا جو ماضی میں بھی یہ کھ چکا ہو کہ میں کراچی کا بیٹا ہوں مسائل حل کراونگا مگر ماضی میں ا سکے پاس اختیار نہ ہو یقیناً امید کی ایک نئی کرن ہے۔
آج کل گورنرسندھ رات میں کراچی کی کسی بھی عام یا خاص سڑک پر نکل جاتے ہیں وہاں عوام کے ساتھ بیٹھ کر سحری کرتے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ محلوں میں جو نوجوان کرکٹ کھیل رہے ہوں انکے ساتھ گھل مل کر بیٹنگ کرنا بھی شروع کردیتے ہیں۔
3 فروری 2017 کو جب کامران ٹیسوری نے ایم کیو ایم پاکستان میں شمولیت اختیار کی تو میری ان اسے بات ہوئی انھوں نے کہا تھا کہ میں کراچی کا بیٹا ہوں میں نے ایم کیو ایم میں شمولیت کا فیصلہ اسلیے کیا کہ شہر قائد کے بنیادی مسائل کو حل کراسکوں کراچی والے اس وقت جس احساس محرومی سے گزر رہے ہیں میں انکا ساتھ دینا ضروری سمجھتا ہوں اور کارکن کے طور پر ایم کیو ایم کے ساتھ کھڑا ہوں۔سندھ کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ صوبے کو ایک ایسے ہی شخص کی ضرورت تھی جو بنیادی مسائل سے آگاہ ہو اسے ڈیفنس، کلفٹن کے علاوہ لیاقت آباد،سہراب گوٹھ، اورنگی ٹاون، بلدیہ اور کیماڑی کے حالات کا بھی علم ہو۔
گورنر ہاوس کے ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ کامران ٹیسوری نے گورنر منتخب ہوتے ہی اپنے ذاتی اخراجات کے لیے رقم جیب سے خرچ کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے عملی جامہ بھی پہنادیا کیونکہ وہ خود ایک معروف تاجر ہیں انہیں 12 ربیع الاول کو گورنر سندھ بنائے جانے کا نوٹیفیکیشن ملا، گورنر ہاوس میں محفل میلاد مصطفیﷺ کا انعقاد کرایا گیا تومعلوم ہوا کہ اس میلاد میں گورنر ہاوس کے سرکاری بجٹ سے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا گیا ہے بلکہ اسکے تمام اخراجات گورنر سندھ نے ذاتی طور پر اٹھائے ۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ منصب سنبھالنے کے بعد وقتًا فوقتًا مخلتف وفود یا اہم لوگ آتے رہے ان کے تحائف بھی وہ ذاتی اخراجات سے منگواتے رہے کچھ عرصہ پہلے گورنر نے اسپیشل بچوں سے گورنر ہاوس میں ملاقات کی اور انہیں جو تحائف دئیے گئے وہ بھی ذاتی طور پر منگوائے تھے۔
اس وقت گورنر ہاؤس میں جو روزانہ عوامی دستر خوان سجایا جا رہا ہے اس میں نہ تو سندھ حکومت کا کوئی پیشہ شامل ہے نہ ہی گورنر ہاؤس کا۔
گورنر سندھ کامران ٹیسوری کے گھرانے کی ایک بہت اچھی عادت جو میں نے خود ذاتی طور پرچند سال قبل انکے گھر جاکر دیکھی وہ یہ ہے کہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں روزانہ سحرو افطار کا خوب اہتمام کیا جاتا ہے انکے گھر کے برابر میں باقاعدہ کئی دسترخوان بچھائے جاتے ہیں جہاں اطراف میں کام کرنیوالے مزدور اور دیگر شہریوں کی بڑی تعداد سحری اور پھر افطاری کرتی نظر آتی ہے اور خاص بات یہ ہے کہ جو اہتمام کامران ٹیسوری کے گھر میں کیا جاتا ہے وہی کھانا، وہی اشیاء باہر بھی رکھی جاتی ہیں۔
گورنر ہاؤس کراچی کی عمارت تین حصوں پر مشتمل ہے ایک حصہ رائل سوٹ کہلاتا ہے جو ملک کے سربراہ اور دیگر اہم شخصیات کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی حصے میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور محترمہ فاطمہ جناح بھی رہائش پذیر رہ چکی ہیں پہلی منزل پر دربار ہال واقع ہے اس ہال میں مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے، حکومت کے وزراء اور مشیران کی حلف برداری کی تقریبات بھی اسی دربار ہال میں منعقد ہوتی ہیں۔
یہ خوبصورت وطن ملنے اور کراچی کے دارالحکومت بننے کے بعد یہ عمارت پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے قائد اعظم محمد علی جناح کی رہائش گاہ بن گئی، اسی عمارت میں قائد اعظم نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا اس وقت سے یہ عمارت گورنر جنرل ہاؤس کہلائی اور قائد اعظم کے بعد آنے والے پاکستان کے تمام گورنر جنرلز کی سرکاری رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہوئی۔
صوبہ سندھ میں بالترتیب گورنر سندھ رہنے والی شخصیات میں شیخ غلام حسین ہدایت اللہ، شیخ دین محمد، میاں امین الدین، جارج بکسنڈال، حبیب ابراہیم رحمت اللہ، نواب افتخار حسین، رحمان گل، ممتاز بھٹو، میر رسول بخش تالپور، بیگم رعنا لیاقت علی خان، نواب محمد دلاور خان جی، عبدالقادر شیخ، جنرل ایس ایم عباسی، جنرل جہانداد خان، اشرف ڈبلیو تابانی، جنرل رحیم الدین خان، قدیر الدین احمد، فخر الدین جی ابراہیم، محمود اے ہارون، حکیم محمد سعید، کمال اظفر،معین الدین حیدر، ممنون حسین، عظیم داؤد پوتہ،محمد میاں سومرو، ڈاکٹرعشرت العباد خان، جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی، محمد زبیرعمر اور عمران اسماعیل شامل ہیں محمود اے ہارون دو مرتبہ گورنر سندھ کے عہدے پر فائز رہے جبکہ شہلا رضا اور آغا سراج درانی قائم مقام گورنر رہ چکے ہیں صوبےکی تاریخ میں اب تک سب سے زیادہ اس عہدے پر فائز رہنے کا اعزاز ڈاکٹر عشرت العباد خان کو حاصل رہا جو 27 دسمبر 2002ء سے 9 نومبر 2016 ء تک گورنر سندھ کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔