مصنوعی ذہانت کے استعمال کا بتدریج عادی ہونے والے افراد جان لیں کہ ایک ہزار سے زائد ماہرین نے اسے انسانیت کیلئے خطرہ قرار دے دیا ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہمصنوعی ذہانت کے تجربات کو اس وقت تک روک دینا چاہیے جب تک اس بات کو یقینی نہ بنا لیا جائے کہ ان سے انسانیت کو کوئی خطرہ نہیں۔
یہ نتائج ایک نئے کُھلے خط میں اخذ کیے گئے ہیں جس میں کہاگیا ہے کہ محققین مصنوعی ذہانت کے نظام کی تیاری پر آئندہ 6 ماہ تک کام روک دیں، اور اگروہ ایسا نہیں کرتے تو پھر حکومتوں کو مداخلت کرنی چاہیے۔
خط می ایلون مسک اور ایپل کمپنی کے شریک بانی سٹیو ووزنیاک سمیت ٹیکنالوجی کے شعبے کے ماہرین اور رہنماؤں کے دستخط ہیں۔
خط کے مندرجات کے مطابق حالیہ مہینوں میں مصنوعی ذہانت کی لیبارٹریز زیادہ طاقتور ڈیجیٹل دماغ تیاراوراستعمال کرنے کی دوڑ میں شامل ہیں جن کے متعلق پیش گوئی یا انہیں قابل اعتماد طورپرکنٹرول نہیں کیا جاسکتا، اگر سائنس دان نئے ماڈلز کی تربیت کرتے رہے تو عین ممکن ہے کہ دنیا کو اس سے کہیں زیادہ مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑے۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ حالیہ مہینوں میں مصنوعی ذہانت کی لیبارٹریز زیادہ طاقتور ڈیجیٹل دماغ تیاراوراستعمال کرنے کی دوڑ میں شامل ہیں جن کے متعلق پیش گوئی یا انہیں قابل اعتماد طورپرکنٹرول نہیں کیا جاسکتا۔ مصنوعی ذہانت کی لیبارٹریز کسی بھی زیادہ طاقتورنظام پرکم ازکم آئندہ 6 ماہ کیلئے کام روک دیں۔اس وقت سب سے جدید اور عوامی سطح پردستیاب مصنوعی ذہانت کا سسٹم جی پی ٹی4 ہے، جسے اوپن اے آئی نامی کمپنی نے بنایا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس 6 ماہ کے وقفے کو عوام کے سامنے لایا جائے۔ اور فوری طور پرایسانہ ہو تو حکومتیں فوری مداخلت سے عارضی پابندی عائد کریں، اس دورانمصنوعی ذہانت کی لیبارٹریاں اورماہرین مصنوعی ذہانت کے سسٹم کے ڈیزائن کیلئے نئے اصول بنانے پر کام کریں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد مصنوعی ذہانت کا کام روکنا نہیں، بلکہ نئے ماڈلز اورصلاحیتوں میں بہتری لانا ہے،اس تعطل کے دوران پالیسی سازوں کو بھی مصنوعی ذہانت کے لیے نئے گورننس سسٹم بنانے کاوقت مل سکتا ہے۔
اپنے مصنوعی ذہانت کے سسٹم پر کام کرنے والی کمپنیوں میں سے کچھ جیسے کہ وگل کی سرپرست کمپنی الفابیٹ کی ملکیت والی برطانوی مصنوعی ذہانت کی کمپنی ڈیپ مائنڈ کے محققین بھی خط پردستخط کرنے والوں میں شامل ہیں۔
واضح رہے کہ ایلون مسک اوپن آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے بانیوں میں سے تھےجنہوں نے 2017 کے آخرمیں لانچ ہونے پرفنڈنگ کی تھی، تاہم بظاہرایلون بھی اس کام کی مخالفت کرتے ہوئے دلسائل دے رہے ہیں کہ نئے سسٹمز کو غلط طریقے سے منافع کمانے کیلئے بنایا جارہا ہے۔