Aaj Logo

شائع 29 مارچ 2023 07:36pm

کیا نیا عدالتی بل نواز شریف کو نااہلی کے فیصلے میں فائدہ پہنچائے گا؟

چیف جسٹس کے اختیارات محدود کرنے کے لیے بنائے گئے نئے قانون میں ایک ترمیم کی منظوری دی گئی ہے، جس کے بعد اس بل نے ایک نیا رخ اختیار کرلیا ہے۔

یہ ترمیم اصل میں محسن داوڑ نے قائمہ کمیٹی میں پیش کی تھی، جہاں بلاول بھٹو زرداری نے اس کی مخالفت بھی کی تھی۔

تاہم بدھ کے اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف بلاول کو گھیرنے میں کامیاب ہو گئے اور اس ترمیم کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران منظور ہونے والے بل کا حصہ بنا دیا گیا۔

ایوانِ بالا میں اور صدر کی منظوری کے بعد یہ قانون بن جائے گا۔

محسن داوڑ کی طرف سے پیش کی گئی ترمیم میں تجویز کیا گیا ہے کہ بل کی شق 5 میں ترمیم کی جائے تاکہ:

“ذیلی دفعہ (1) کے تحت اپیل کا حق کسی ایسے متاثرہ شخص کو بھی دستیاب ہو جس کے خلاف اس ایکٹ کے آغاز سے قبل آئین کے آرٹیکل 184 کی شق (3) کے تحت حکم دیا گیا ہو۔بشرطیکہ اپیل اس ذیلی دفعہ کے شروع ہونے کے 30 دنوں کے اندر دائر کی جائے۔

فطری طور پر، اس سے از خود نوٹسز کے ہر فیصلے کو چیلنج کرنے کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اور چونکہ یہ بل 30 دن کی مدت متعین کرتا ہے، اور سینیٹ کے راستے اسمبلی سے گزر چکا ہے، اس لیے اگلے چند دنوں میں اس پر کچھ کارروائی ہوتی نظر آنی چاہیے۔

کم از کم فواد چوہدری تو یہی سوچ رہے ہیں۔

بل کے اسمبلی سے منظوری کے فوراً بعد پوسٹ کی گئی ایک ٹویٹ میں فواد نے کہا کہ ترمیم خفیہ طور پر منظور کی گئی۔

انہوں نے لکھا، ”آج اس حکومت نے نواز شریف کو نااہلی کے خلاف ریلیف دینے کیلئے چوری ترمیم کروائی، انہوں نے پھر ثابت کیا یہ کتنے بڑے فراڈ ہیں، نواز شریف کی نااہلی آرٹیکل 184(3) کے تحت ہوئی، عام قانون سے آپ اس کو کیسے بدل سکتے ہیں، نواز شریف آ کر ٹرائیل کا سامنا کریں چور دروازے استعمال کرنا بند کریں۔“

نواز شریف کو اس قانون سے کیسے فائدہ ہوگا؟

ن لیگ کے سپریمو کو 2017 میں عوامی عہدہ رکھنے کے لیے تاحیات نااہل قرار دے دیا گیا تھا، آرٹیکل 184(3) کے تحت تشکیل دی گئی سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے فیصلہ دیا تھا کہ انہوں نے اپنے اثاثوں کے بارے میں پارلیمنٹ کے ساتھ دروغ گوئی کی تھی، کیونکہ وہ اپنے بیٹے سے وصول کی جانی والی تنخواہ ظاہر کرنے میں ناکام رہے تھے، بھلے ہی وہ انہیں ملی نہ ہو۔

ججز کو اس پانچ رکنی لارجر بینچ سے چنا گیا تھا جس نے اصل میں شریف خاندان کے خلاف پانامہ کیس کی سماعت کی تھی۔

نواز شریف نے 2017 میں فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی لیکن بے سود رہا۔

آرٹیکل 184(3) (جو سپریم کورٹ کو از خود نوٹس لینے کی اجازت دیتا ہے) کے تحت کئے گئے فیصلوں کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا اور متاثرہ فریق کے پاس واحد راستہ نظرثانی کا مطالبہ کرنا ہے، جس کا بنیادی مطلب ہے کہ آپ ان ہی ججوں سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کو کہتے ہیں۔

نیا قانون شکایت کنندگان کو آرٹیکل 184(3) کے تحت دیئے گئے فیصلوں کو چیلنج کرنے کی اجازت دے گا۔

چونکہ قانون کا اطلاق پرانے مقدمات پر بھی ہوگا، فواد کا خیال ہے کہ اس سے نواز شریف کو فائدہ ہوگا۔

Read Comments