سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت (کل) جمعرات تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے نے بدھ کی سماعت میں کہا کہ غصے کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے، سیاسی قوتوں کےدرمیان تناؤسےدیگرریاستی ادارےمتاثرہورہےہیں، عوام میں اداروں کے بارے میں باتیں کی جاتی ہیں، ادارے بول نہیں سکتے اس لیے خاموش رہ کر سنتے ہیں، شفاف الیکشن کے لیے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کا کہا ہے۔
عدالت نے پی ٹی آئی سے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی یقین دہانی بھی مانگ لی۔
سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے اس بات بھی کی وضاحت کردی کہ ان کے اور جسٹس منصور علی شاہ کی نظر میں الیکشن کی تاریخ سے متعلق درخواستیں چار تین کے اکثریتی فیصلے سے مسترد ہوچکی ہیں اور یہ کہ عدالت عظمی نے یکم مارچ کے فیصلے پر آرڈر آف دی کورٹ جاری ہی نہیں کیا تھا۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ انتخابات میں التوا کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کررہا ہے۔
لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی شامل ہیں۔
بدھ کو سماعت شروع ہوئی تو وکیل فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ کیس میں پارٹی بننے کی درخواست دائر کردی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ اپنا مؤقف پیش کرنا چاہتے ہیں، آپ کی درخواست پی ڈی ایم کی طرف سے ہے؟۔ جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کا حصہ نہیں ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ پہلے الیکشن کمیشن کے وکیل کوسنیں گے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے، آپ کی جوگزارشات ہیں وہ تحریری صورت میں دیں۔
فاروق ایچ نائک نے کہا کہ ہم نے درخواست مقدمہ میں فریق بنانے کیلئے دی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ کو سن لیں گے آپ درخواست دیں۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اختیارات کے نقطہ پرفیصلہ کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اختیارات کا نقطہ نہیں ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ درخواست قابل سماعت ہی نہیں، رجسٹرار آفس ہماری درخواست ہی نہیں لیتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آفس کو ہم کہہ دیتے ہیں آپ درخواست دے دیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 4 ججز نے پی ٹی آٸی کی درخواستیں خارج کی، ہمارے حساب سے فیصلہ 4 ججز کا ہے، چیف جسٹس نے آج تک آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں کیا، جب آرڈرآف کورٹ نہیں تھا تو صدر نے تاریخ کیسے دی، جب آرڈر آف کورٹ نہیں تو الیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے دیا؟
الیکشن کمیشن کی جانب سے عرفان قادرعدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف پیش کیا کہ میری آج پہلی پیشی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ سے پہلے سواتی صاحب کمیشن کے وکیل تھے، ہم اس کیس کو آگے لے جانا چاہتے ہیں۔
عرفان قادر نے کہا کہ عدالت مجھے نہیں سنناچاہتی تو دوسرےوکیل کو سن لیں، عدالت مجھے بطور وکیل الیکشن کمیشن سننا چاہتی ہے یا نہیں، بینچ کہہ دے تو چلا جاؤں گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے کل حامد شاہ اور سجیل سواتی پیش ہوئے تھے، الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی ہیں۔
وکیل عرفان قادر نے کہا کہ آپ نے کہہ دیا تومیں بیٹھ رہا ہوں، ٹھیک ہے میں چلا جاتا ہوں، عرفان قادر کمرہ عدالت سے چلے گئے۔
الیکشن کمیشن کے دوسرے وکیل سجیل سواتی روسٹرم پر آگئے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سجیل سواتی سے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے کس حکم کےتحت فیصلے پرعملدرآمد کیا۔
وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے عدالت کو بتایا کہ میں اپنی گزارشات پیش کروں گا، الیکشن کمیشن نے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد کیا، عدالتی حکم کے بعد الیکشن کمیشن نے صدر سے رجوع کیا، صدرمملکت نے 30 اپریل کی تاریخ دی۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ تاریخ مقرر کرنے کے بعد شیڈول جاری کیا، اور الیکشن کمیشن نے انتخابات کی تیاریاں شروع کردی، آرٹیکل218کی ذمہ داری کسی بھی قانون سےبڑھ کرہے،انتخابات کیلئے سازگارماحول کا بھی آئین میں ذکرہے، آرٹیکل 224 کےتحت الیکشن 90 روزمیں ہوناہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے اچھی تیاری کی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ آج ریکارڈ کی فائل منگوالیں،اس میں آرڈر آف دی کورٹ نہیں، آرڈر آف دی کورٹ پر تمام جج سائن کرتے ہیں۔
وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ عدالتی آرڈر میں لکھا ہے کہ فیصلہ 3/2 سے ہے، 3/2 والے فیصلے پرپانچ ججزکے دستخط ہیں، کمیشن نے فیصلہ کے پیراگراف 14 کو پڑھ کرعمل کیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے مختصر حکم نامہ دیکھا تھا۔ وکیل سجیل سواتی نے جواب دیا کہ ممکن ہے کہ ہمارے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا مختصر حکم نامے میں لکھا ہےکہ فیصلہ 4/3 کا ہے۔وکیل سجیل سواتی نے جواب دیا کہ اسی بات کو دیکھ کرعدالتی حکم پرعمل کیا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اختلافی نوٹ میں کہیں نہیں لکھا فیصلہ 4/3 کا ہے،اختلاف رائے جج کا حق ہے، اقلیت خود کو اکثریت میں ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتی، عدالت میں 5 ججز نے مقدمہ سنا اور فیصلے پر دستخط کیے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا، مختصر حکم نامے میں لکھا ہے کہ اختلافی نوٹ لکھے گئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جو معاملہ ہمارے چیمبرز کا ہے اسے وہاں ہی رہنے دیں، اٹارنی جنرل اس نقطہ پر اپنے دلائل دیں گے۔
جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا کہ تفصیلی فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کا کیا مؤقف ہے۔ وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ 4/3 کے فیصلے پر الیکشن کمیشن سے ہدایات نہیں لیں۔
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کی، تو سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے شفاف انتخابات کیلئے کوششیں کیں، الیکشن کمیشن نے الیکشن کی تاریخیں تجویزک یں، 3 مارچ کو عدالتی فیصلہ موصول ہوا، الیکشن کمیشن نے اپنی سمجھ سے فیصلے پر عملدرآمد شروع کیا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل17پر امن انتخابات کی بات کرتا ہے، ووٹ کے حق اور شہریوں کی سیکیورٹی کو بھی دیکھنا ہے، صدر کی طرف سے تاریخ ملنے پر شیڈول جاری کیا، الیکشن کے لیے 4 لاکھ 12 ہزارکی نفری مانگی گئی، فوج نے الیکشن کمیشن کو جوان دینے سے انکار کیا، 2 لاکھ 97 ہزار سیکیورٹی اہلکاروں کی کمی کا سامنا ہے۔
وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ ایجنسیوں نے الیکشن کمیشن کو خفیہ رپورٹس دیں، عدالت کہے گی تو خفیہ رپورٹس بھی دکھا دیں گے، رپورٹس میں مختلف کالعدم تنظیموں کی موجودگی ظاہرکی گئی۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ 8 فروری کے لیٹرز ہر انحصار کر رہے ہیں، جب کہ عدالت نے یکم مارچ کو اپنا فیصلہ دیا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ پس منظر کے طور پر ان رپورٹس کا حوالہ دیا، الیکشن کمیشن نے فیصلہ 22 مارچ کو کیا، وزارت داخلہ نے 8 فروری کے خط میں امن وامان کا ذکر کیا تھا۔
جسٹس منیب اختر نے دوبارہ استفسار کیا کہ کیا آپ کو فروری میں خیال تھا کہ اکتوبر میں الیکشن کروانا ہے، دوسری طرف آپ کہتے ہیں کہ عدالتی فیصلے سے انحراف کا سوچ نہیں سکتے، اگر اکتوبر میں الیکشن کروانا تھا تو صدر کو 30 اپریل کی تاریخ کیوں دی۔
چیف جسٹس نے وکیل الیکشن سے کہا کہ اس کے علاوہ بہت سارے سوالات ہیں، جسٹس منیب اختر کے سوالات نوٹ کر لیں، آپ دلاٸل دیں پھر سوالوں کے جواب دیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پنجاب کیلئے 2 لاکھ 97 ہزار سیکیورٹی اہلکاروں کی کمی کا بتایا گیا۔
جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کیلئے قومی اسمبلی نے فنڈز کی منظور دی ہے۔ جس پر سجیل سواتی نے کہا کہ وزارت خزانہ اس بات کا تفصیل سےجواب دے سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ الیکشن تو ہر صورت 2023 میں ہونا تھے، کیا بجٹ میں 2023 الیکشن کیلئے بجٹ نہیں رکھا گیا تھا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت میں مؤقف دیا کہ انتخابات کیلئے بجٹ آئندہ مالی سال میں رکھنا ہے، قبل از وقت اسمبلی تحلیل ہوئی اس کاعلم نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر انتخابات پورے ملک میں ایک ساتھ ہوں تو کتنا خرچ ہوگا۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ایک ہی دفعہ انتخابات پر47 ارب روپے خرچ ہوں گے، اور انتخابات الگ الگ ہوں تو 20 ارب روپے اضافی خرچ ہوگا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ اسپیشل سیکرٹری داخلہ نے بتایا سیکیورٹی خطرات ہیں، وزارت داخلہ نے توعمران خان پرحملے کا بھی حوالہ دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جومعلومات آپ دے رہے ہیں وہ سنگین نوعیت کی ہیں، کیا آپ نے یہ باتیں صدرمملکت کےعلم میں لاٸی، اگر صدر کو نہیں بتایا توآپ نے غلطی کی ہے، صدر مملکت نے تاریخ الیکشن کمیشن کے مشورے سے دی تھی، خفیہ رپورٹس میں کہا گیا علاقوں کو کلٸیر کرنے میں 6 ماہ لگیں گے، سیکیورٹی سے متعلق اعداد وشمار بڑے سنجیدہ ہیں۔
وکیل سنجیل سواتی نے کہا کہ پنجاب نے بھی مختلف علاقوں میں جاری آپریشن کا ذکر کیا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو علم ہے کچے کےعلاقوں میں ہر3 روز بعد آپریشن ہوتا ہے، پنجاب میں کچےکا آپریشن کب مکمل ہوگا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کچے آپریشن مکمل ہونے میں 6 ماہ تک لگ سکتے ہیں، کمیشن کو بتایا گیا تھا فوج کی تعیناتی کے بغیر الیکشن ناممکن ہوگا، رپورٹس میں بتایا گیا مختلف دہشتگرد تنظیمیں متحرک ہیں، رپورٹس کےمطابق خطرات سے نکلنے میں 7 ماہ لگیں گے، رپورٹس کے مطابق عوام میں عدم سکیورٹی کا تاثربھی زیادہ ہے، خیبر پختونخوا کے 80 فیصد علاقوں میں سیکیورٹی خطرات زیادہ ہیں۔
چیف جسٹس نے سنجیل سواتی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے صدر مملکت کو حقاٸق بتائے بغیر ہی تاریخیں تجویز کر دی۔ سجیل سواتی نے جواب دیا کہ صدر مملکت نے تاریخ کی تبدیلی پر الیکشن کمیشن کو خط نہیں لکھا، بلکہ انہوں ںے تاریخ کی تبدیلی پر وزیراعظم کو خط لکھ دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پنجاب میں دہشتگردی کے 5 واقعات ہوئے، آخری واقعہ سابق وزیراعظم عمران خان پر قاتلانہ حملہ تھا۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اگر ادارے آپ کو معاونت فراہم کریں تو کیا آپ الیکشن کروائیں گے، بظاہر الیکشن کمیشن کا سارا مقدمہ خطوط پر ہے، اور اس کا مسٸلہ فنڈز کی دستیابی کا ہے۔
وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کا مقصد سیاسی نظام کوچلنے رہنے دینا ہے، ایک مسئلہ سیاسی درجہ حرارت کا ہے، پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر اور اٹارنی جنرل کو سیاسی درجہ حرارت کم کرنے پر ہدایت لے کر آگاہ کرنے کا کہا تھا، ان کے مطابق سیاسی درجہ حرارت کم ہونے تک انتحابات پرامن نہیں ہوسکتے، لیکن کسی فریق نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائی۔
پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ عدالت کو مکمل یقین دہانی کروانے کے لیے تیار ہیں۔ چیف جسٹس نے علی ظفر سے استفسار کیا کہ یقین دہانی کس کی طرف سے ہے۔ جس پر وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ چیرمین پی ٹی آئی کی جانب سے تحریری یقین دہانی کروائیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کی پارٹی کی باری آئے گی تو ان سے بھی اس حوالے سے بات کریں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جہاں مسئلہ زیادہ ہے اس ضلع میں انتخابات مؤخر بھی ہوسکتے ہیں، الیکشن کمیشن نے کچے آپریشن کیوجہ سے انتخابات ملتوی کردیا، کے پی کے میں الیکشن کی تاریخ دے کرواپس لی گئی، 8 اکتوبر کی تاریخ پہلے سے مقرر کی گئی، 8 اکتوبر کو کون سا جادو ہو جائے گا جو سب ٹھیک ہو جائے گا، عبوری جائزے کا مطلب ہے کہ انتحابات مزید تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں، عدالت کو پکی بات چاہیے۔
وقفے کے بعد ایک بار پھر الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے دلائل شروع کئے اور کہا کہ عدالتی سوالات پر ہدایات لی ہیں، الیکشن کمیشن کی 8 اکتوبرکی تاریخ عارضی نہیں، ایجنسیوں کی رپورٹ کےمطابق تھریٹس لیول بڑھ گیا، پرامن اورشفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔
وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ شفاف انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کوئی بھی حکم جاری کرسکتا، ورکرزپارٹی فیصلہ کے تحت انتخابات کیلئے وسیع اختیارات ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ کہہ رہے ہیں اداروں سے معاونت نہیں مل رہی، الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری سے کیسے بھاگ سکتا ہے، صاف شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، انتخابی شیڈول پر عمل شروع ہوگیا تھا، اگر کوئی مشکل تھی توعدالت آجاتے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن وضاحت کرے کہ الیکشنز 6 ماہ آگے کیوں کر دئیے؟ کیا ایسے الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری پورے کرے گا، کیا انتخابات میں 6 ماہ کی تاخیر آئینی مدت کی خلاف ورزی نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ انتخابات کرانے کا اختیارکس دن سے شروع ہوتاہے، انتخابی تاریخ مقرر ہونے سے اختیار شروع ہوتا ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ تاریخ مقرر ہو جائے تو اسے بڑھانے کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے، صرف پولنگ کا دن نہیں پورا الیکشن پروگرام مؤخر کیا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن پروگرام تبدیل کرسکتا ہے تاریخ نہیں۔ جس پر وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن ٹھوس وجوہات پر الیکشن پروگرام واپس لے سکتا ہے۔
جسٹس اعجازالحسن نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ گورنراورصدرکی دی گئی تاریخ کیسے تبدیل کرسکتے ہیں، آئین میں واضح ہے کہ پولنگ کی تاریخ کون دے گا، کیا الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 آٸین سے بالاتر ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ سے رجوع کرکے قائل کرنا چاہئے تھا، آپ آج ہی عدالت کو قائل کرلیں، 8 اکتوبرکوٸی جادوئی تاریخ ہے جو اس دن سب ٹھیک ہو جائے گا، 8 اکتوبرکی جگہ 8 ستمبر یا 8 اگست کیوں نہیں ہوسکتی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا پولنگ کی تاریخ الیکشن پروگرام کا حصہ ہوتی ہے۔ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پولنگ کی تاریخ الیکشن شیڈول کا حصہ ہوتی ہے۔
جسٹس امین الدین نے استفسار کیا کہ صدر کو تجویز تاریخ کمیشن کی تاریخ سے مطابقت نہیں رکھتی، صدر کو فروری میں ہونے والے اجلاسوں سے کیوں آگاہ نہیں کیا گیا۔ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ معاملہ کی حساسیت کا اندازہ مارچ میں ہوا۔ جسٹس امین الدین خان نے پھر استفسار کیا کہ عدالت نے صدر کو آگاہ کرنے سے نہیں روکا۔ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ حالات کا جائزہ لینا الیکشن کمیشن کا کام ہے صدر کا نہیں، انتخابات کی طرح زندگی کا تحفظ بھی عوام کا بنیادی حق ہے، عدالت صرف الیکشن کمیشن کا حکم بدنیتی پر مبنی ہونے پر کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا بدنیتی کا نقطہ درخواست گزارنے اٹھایا ہے۔ وکیل نے جواب دیا کہ درخواست میں بدنیتی کا نقطہ نہیں اٹھایا گیا۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کا حکم نامہ بنیادی طور پر مدد کی پکارہے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آزادنہ شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن حکومت پرانحصارکرتا ہے، حکومت نے بتانا ہے وہ مدد کرنے کی پوزیشن میں ہے یا نہیں، الیکشن کمیشن حکومت کی بریفنگ پرمطمئن ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ پیسےاور سیکیورٹی مل جائے تو 30 اپریل کو انتخابات ہوسکتے ہیں۔ جس پرسجیل سواتی نے جواب دیا کہ حکومتی معاونت مل جائے تو 30 اپریل کو انتخابات کرواسکتےہیں۔ الیکشن کمیشن حقیقت پسندانہ فیصلہ کرے گا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر انتظامی ادارے تعاون نہیں کر رہے تھے توعدالت کو بتاتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن راستہ نہیں ڈھونڈ سکتا تو ہم ڈھونڈیں گے، بنیادی حقوق کومدنظررکھتے ہوئے آئین کی تشریح ہوگئی، آرٹیکل 218-3 آرٹیکل 224 سے بالاتر کیسے ہوسکتا ہے۔
سجیل سواتی نے کہا کہ آرٹیکل218-3شفاف منصفانہ انتحابات کی بات کرتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ شفاف انتحابات نہیں ہوں گے تو کیا ہو گا۔ وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن شفاف نہ ہوں توجہموریت نہیں چلے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سازگار ماحول کا کیا مطلب ہے کہ کوئی کسی پر انگلی نہ اٹھائے، چھوٹی موٹی لڑائی جھگڑے تو ہر ملک میں ہوتے ہیں، اصل معاملہ یہ ہے کہ اسلحہ کا استعمال نہ ہو، سمندر پار پاکستانی ووٹ کا حق مانگتے ہیں، الیکشن کمیشن نے سمندر پار پاکستانیوں کیلئےکچھ نہیں کیا، حکومت سے پوچھتے ہیں کہ 6 ماہ کا عرصہ کم ہوسکتا ہے یا نہیں۔
بدھ کی سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس پاکستان نے اہم ریمارکس دیئے اور سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کیلئے پی ٹی آئی سے تحریری یقین دہانی مانگتے ہوئے کہا کہ سیاسی قوتوں کے درمیان تناؤ سے دیگر ریاستی ادارے متاثر ہو رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عوام میں اداروں کے بارے میں باتیں کی جاتی ہیں، ادارے بول نہیں سکتے اس لیے خاموش رہ کر سنتے ہیں، شفاف الیکشن کے لیے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کا کہا، فیئر پلے ہو تو اسپورٹس مین سامنے آتے ہیں، جنگجو نہیں، غصے کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے، حکومت کی جانب سے کون یقین دہانی کروائے گا یہ بتائیں، کوئی سینئرعہدیدار یقین دہانی کروائے تو مناسب ہو گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی کارروائی کامقصدریاستی کام کو آئین کے مطابق رکھنا ہے، عدالتی کارروائی کسی کو فائدہ دینے کے لیے نہیں، الیکشن کے بغیر جمہوری حکومتیں نہیں آ سکتیں، 2 وزرائےاعلی نے اپنا اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار استعمال کیا، آگے بڑھنے کے لیے قدم اٹھانا پڑتے ہیں، وزارت داخلہ اور دفاع سے کم سےکم وقت پوچھ کر بتائیں۔
اٹارنی جنرل سے کہا کہ رواں سال 412 سیکیورٹی اہلکار اور سو سے زائد سویلین شہید ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابات2 دن میں بھی ہوسکتے ہیں، اگر ایک دن ممکن نہ ہوں۔
بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ ایران میں جنگ کے دوران بھی الیکشن ہوئےتھے۔
واضح رہے کہ 25 مارچ کو پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی ۔