برطانوی سیاست کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستانی نژاد حمزہ یوسف اسکاٹ لینڈ کے پہلے مسلمان سربراہ (فرسٹ منسٹر)منتخب ہوگئے ہیں۔
سخت مقابلے کے بعد نکولا سٹرجن کی جگہ اسکاٹش نیشنل پارٹی کے نئے سربراہ منتخب ہو نے والے 37 سالہ حمزہ یوسف کو آزادی حاصل کرنے کی کوشش میں سکاٹش نیشنل پارٹی کو متحد کرنے کی مشکل کا سامناہے ۔
خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق حمزہ یوسف نے پارٹی الیکشن میں اپنے حریفوں کیٹ فوربز اوراش ریگن کوشکست دی جس کے بعد جماعت میں پائی جانے والی تقسیم واضح ہوگئی ہے۔ اسکاٹ لینڈ کے وزیرصحت حمزہ یوسف کو نکولا سٹورجین کا پسندیدہ جانشین سمجھاجاتا ہے۔
حمزہ اسکاٹش پارلیمنٹ سے 28 مارچ کو اعتماد کا ووٹ لیں گے جس کے بعد وہ باضابطہ طور پر فرسٹ منسٹر بن جائیں گے۔سال 2011 میں 26 سال کی عمر میں اسکاٹش پارلیمنٹ کا رکن بننے والے حمزہ یوسف کو کم عمرترین رکن پارلیمنٹ ہونے کا اعزازحاصل ہے۔ وہ اسکاٹش کابینہ میں وزیرانصاف اورٹرانسپورٹ بھی رہ چکے ہیں۔
پہلی باررکن پارلیمنٹ بنننے پر حمزہ یوسف نے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں حلف اٹھایا تھا۔
حمزہ یوسف کے دادا، دادی 1962 میں پاکستان سے اسکاٹ لینڈ منتقل ہوئے تھے جبکہ ان کی والدہ کینیا میں جنوبی ایشیائی نژاد خاندان میں پیدا ہوئیں۔
حمزہ کی دوسری بیوی سے ان کا ایک بچہ اور ایک سوتیلی بیٹی بھی ہے۔
نتائج کے بعد حمزہ یوسف نے ایڈنبرا میں خطاب کرتے ہوئے کہا، ’ہم وہ نسل ہوں گے جو اسکاٹ لینڈ کو آزادی دے گی‘۔ حمزہ کے مطابق، ’آزاد اسکاٹ لینڈ کو بادشاہت ختم کرنے پرغورکرنا چاہیے‘۔
روئٹرز کے مطابق حمزہ یوسف کو قیادت کی خاطرپارٹی متحد کرنے کی بھی کوشش کرنا ہوگی۔ جس کے باعث آزادی اور سماجی مسائل کے بارے میں امیدواروں کے نقطہ نظر پر اختلافات سامنے آئے ہیں۔
اس حوالے سے حمزہ نے کہا کہ، ’جہاں اختلافات ختم کرنے کی ضرورت ہے وہاں ہمیں جلد ازجلد ایسا کرناچاہیے کیونکہ بطور ایک پارٹی جب ہم متحد ہوتے ہیں تو سب سے مضبوط ہوتے ہیں اور جوچیز ہمیں متحد کرتی ہے وہ ہماری قوم کو آزادی دلانے کا مشترکہ مقصد ہے‘۔
اسکاٹ لینڈ پارلیمنٹ کی جانب سے منظورکردہ ایک بل روکنے کا برطانوی حکومت کا فیصلے چیلنج کرنے کا عندیہ بھی دیا، جس سے لوگوں کو اپنی قانونی جنس تبدیل کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ حمزہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے عقیدے کی بناء پر قانون سازی نہیں کرتے اور ہم جنس پرستوں کی شادی کی حمایت کرتے ہیں۔