پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان پیر کو ایک بار پھر اسلام آباد کی عدالت میں پیش ہوئے۔ 18 مارچ کی طرح، پولیس ان کی جماعت کے درجنوں کارکنوں کو اٹھا کر لے گئی لیکن اس بار وہ بغیر کسی ہنگامے کے عدالت کے اندر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
حقیقتاً عمران خان کے ساتھ پچھلی بار کے مقابلے میں بہت کم لوگ تھے، لیکن اس بار شاید پولیس نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور معاملات کو زیادہ خاموشی کے ساتھ سنبھالا۔
پولیس کی نئی حکمت عملی جس میں یقینی بنایا گیا کہ کوئی پتھراؤ نہیں کیا جائے ، کوئی لاٹھی نہیں اٹھائی جائے اور آنسو گیس کے گولے نہ داغے جائیں گے، دو اہم نکات پر مبنی تھی، ایک سے زائد حصار اور درست وقت پر حرکت۔
جب عمران خان 18 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے تقریباً دو کلومیٹر کے فاصلے پر موجود جوڈیشل کمپلیکس پہنچے تو پولیس نے احاطے کو کنٹیروں کی دیوار سے گھیر رکھا تھا۔
عمران خان جب سری نگر ہائی وے پر پہنچے تو پہلی جھڑپ کنٹینرز کے دروازے پر ہوئی۔ پہلی رکاوٹ عبور کرنے کے بعد عدالت کے گیٹ پر قانون نافذ کرنے والے سینکڑوں نہیں تو درجنوں اہلکار انتظار کر رہے تھے۔ اصل معرکہ گیٹ پر ہوا، جہاں بالآخر عمران خان پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے اور گاڑی سے ہی حاضری پر دستخط کر دیے۔
اس بار پولیس نے گیٹ پر پولیس کی بھاری نفری بالکل نہیں رکھی۔ پولیس نہ ہونے کی وجہ سے عدالت کے قریب یا اس کے گیٹ پر کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔ پولیس کہیں اور تھی۔
پولیس نے اس بار کنٹینرز کے دو حصار بنائے۔ پہلی پرت عدالت کے گیٹ سے تقریباً آدھا کلومیٹر دور تھی، جبکہ دوسری تہہ اس سے بھی مزید آدھا کلومیٹر دور تھی۔
بیرونی حصار پر سیکیورٹی کی موجودگی سب سے زیادہ تھی، اس لیے ایک بار جب عمران اور ان کے حامی عدالت کی طرف گئے تو انہیں یکے بعد دیگرے کم سیکیورٹی کا سامنا کرنا پڑا۔
کون کس حصار کو عبور کرتا ہے، پولیس نے یہ بھی کنٹرول کرنے کا ایک طریقہ اپنایا۔ باہری حصار سے پانچ گاڑیوں کو اندر جانے دیا گیا جس میں ایک عمران کو لے جا رہی تھی، دوسری تہہ پر صرف دو گاڑیوں کو جانے کی اجازت تھی۔ جس میں سے ایک عمران خان کو لے کر جا رہی تھی، اور دوسری گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ خالد خورشید کو لے کر جا رہی تھی۔
پچھلی بار، پی ٹی آئی کے ہجوم کو قریب آتے ہی پولیس حرکت میں آگئی تھی۔ ان کی کارروائی کو عمران خان پر حملے سے تعبیر کیا گیا، اور حامی ان کے دفاع میں عمران خان کے آگے دیوار بن گئے۔
اس بار متعدد سطحوں پر حصاروں نے عمران خان کو ان کے حامیوں سے مؤثر طریقے سے الگ کر دیا، پولیس نے بھی فیصلہ کیا کہ کب کارروائی کرنی ہے۔
جیسے ہی پانچ گاڑیاں باہر کے حصار سے گزریں، پولیس نے پیدل پیچھے آنے والے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔ نہ لاٹھیاں، نہ چیخیں، نہ گولہ باری۔
پولیس صرف دو اور تین کے گروپ میں گئی، کبھی کبھی سادہ لباس افسران بھی گئے اور لوگوں کو قیدی وین تک لے گئے۔
گرفتار کیے گئے 38 افراد میں سے ایک عمران خان کا فوٹوگرافر بھی تھا۔
جب عمران خان عدالت کے احاطے میں داخل ہوئے تو ان کے ساتھ آنے والی تین گاڑیوں کو کنٹینرز کی دو تہوں کے درمیان پھنسا دیا گیا اور ان کے ساتھ آنے والے چند کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔
چنانچہ جب عمران خان نے واپسی کا راستہ اختیار کیا تو پایا کہ تین گاڑیوں میں سے ایک پر (غالباً پولیس کی جانب سے) حملہ کیا گیا تھا اور توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ عمران نے گاڑی کو ”میری پارک کی ہوئی کار“ کہا کیونکہ یہ ان کے پانچ گاڑیوں کے کارواں کا حصہ تھی۔
پولیس تین درجن سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا اور عمران خان کو بغیر کسی شور کے عدالت کے اندر لے جانے میں کامیاب ہو گئی۔
اگرچہ ان کی اگلی سماعت کے لیے آنے والے مظاہرین کی تعداد ان کے کنٹرول میں نہیں ہے، لیکن پولیس نے یہ سبق سیکھ لیا ہے کہ بھاری جتھوں کے ساتھ چارج شدہ ہجوم پر حملہ کرنا معاملات کو سنبھالنے کا طریقہ نہیں ہے۔