Aaj Logo

شائع 25 مارچ 2023 11:17am

جنرل باجوہ نے خود سے منسوب انٹرویو جعلی قرار دیدیا، صحافی کا دعویٰ

اینکر پرسن کامران شاہد نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمرجاوید باجوہ نے سینیئر صحافی شاہد میتلا کو دیے گئے انٹرویو کی تردید کردی ہے۔

سینئرصحافی شاہد میتلانے دعویٰ کیا تھا کہ جنرل باجوہ نے انہیں انٹرویو دیاہے جس کی تفصیلات انہوں نے اپنے 2 کالموں میں شیئربھی کی ہیں۔

اس انٹرویو کا پہلا حصہ’ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)‘ کے عنوان سے 22 مارچ جبکہ دوسرا ’الیکشن کی تاریخ طے ہوگئی تھی: جنرل باجوہ سے ملاقات(دوسرا حصہ)‘ کے عنوان سے 23 مارچ کو شائع ہوا۔

دوسرے حصے کے بعد اس انٹرویو کا تیسرا حصہ ابھی منظرعام پرآنا باقی ہے۔

کامران شاہد نے اپنی ٹویٹ میں بتایا کہ ان کی جنرل (ر) باجوہ سے ابھی ٹیلیفون پربات ہوئی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ میں نے کسی کو انٹرویو نہیں دیا۔

کامران شاہد کے مطابق جنرل باجوہ نے مزید کہا کہ ، ’میں قانونی کارروائی کرنے جارہا ہوں۔‘

اپنی اگلی ٹویٹ میں کامران شاہد نے بتایا کہ جنرل باجوہ نے ان کے ساتھ یہ بیان شیئرکیا ہے، ’میں نے کسی ادارے کو کوئی انٹرویو نہیں دیا، مجھے 29 نومبر 2024 تک کوئی بیان، تبصرہ یا انٹرویو دینے کی اجازت نہیں ہے۔‘

کامران شاہد کی اس ٹویٹ کے بعد معروف صحافیوں سمیت عام صارفین کی جانب سے بھی تبصروں میں سوال اٹھایا گیا کہ جنرل باجوہ نے یہ تردید انٹرویو کے پہلے حصے کی اشاعت کے بعد کیوں نہیں کی۔

سینیئرصحافی حامد میرنے کہا کہ ، ’باجوہ نے کبھی پہلے حصے کی مخالفت کیوں نہیں کی؟اب وہ اپنے انٹرویو کے دوسرے حصے کی تردید کررہے ہیں کیونکہ وفاقی حکومت ان کے شہباز شریف کیخلاف بیان پربرہم ہے۔‘

حامد میرنے تبصرہ کیا کہ اس معاملے پر مسلم لیگ (ن)خاموش ہے لیکن جنرل باجوہ نے اس ”مبینہ“ انٹرویو میں موجودہ وزیر اعظم کے بارے میں غیرذمہ دارانہ تبصرہ کیا۔

سینیئرصحافی طلعت حسین نے اپنی ٹویٹ میں لکھا، ’اعلیٰ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ جنرل (ر) باجوہ سے جُڑے انٹرویو نے وزیراعظم آفس میں شدید اشتعال پیدا کیا اور موجودہ فوجی کمان کو شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کے بعد انہیں شٹ اپ کال دی گئی اور کہا گیا کہ وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں اسے روک دیں۔‘

انٹرویو کب اور کہاں لیا گیا

شاہد میتلا کے مطابق وہ 2 فروری 2023 کو جنرل باجوہ کے فرسٹ کزن چودھری نعیم گھمن کی تیمارداری کے لیے ان کے گھرگئے تھے جہاں کچھ دیر کے بعد سابق آرمی چیف بھی تشریف لے آئے اور ان سے یہ ملاقات خاصی طویل رہی۔

واضح رہے کہ انٹرویو کے دوسرے حصے میں صحافی شاہد میتلانے جنرل باجوہ کے حوالے سے لکھا کہ وہ 10 اپریل کوعمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد شہباز شریف سے ملنے گئے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ، ’دو تین قوانین بنا کر چارچھ ہفتوں میں الیکشن کا اعلان کردیں گے۔‘

انٹرویو کے مطابق جنرل باجوہ نے کہا کہ 9 مئی کو شہباز شریف اور ملک احمد خان ان کے گھر گئے اور بتایا الیکشن کروانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے،الیکشن کمیشن مردم شماری اور حلقہ بندیاں 5 اگست تک مکمل کرلے گا۔ اگرہم بجٹ نہیں دیتے ہیں تو 5ستمبر اوربجٹ پیش کرنا پڑا تو5 اکتوبرکو الیکشن کروانے کے لیے تیارہیں۔یوں الیکشن کی تاریخ کا فیصلہ ہوگیا اور پی ٹی آئی کو آگاہ کرتےہوئے کہا گیاکہ لانگ مارچ کا اعلان نہ کریں۔

شہبازشریف نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا تھا

انٹرویومیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شہبازشریف نے 20 مئی کو استعفیٰ دینے کا فیصلہ کرلیا تھا تاہم ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم نے کہا کہ اگرشہباز شریف استعفیٰ دیتے ہیں تو 25 مئی کو قطر میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کون کر ے گا۔حکومت سے درخواست کریں کہ شہباز شریف 10 دن بعد مستعفیٰ ہوں تاکہ آئی ایم ایف سے مذاکرات بھی ہو جائیں اور نگران سیٹ اپ بنانے کے لیے ہمیں دس دن کا وقت بھی مل جائے۔ پھریہ استعفیٰ نواز شریف سے بات کرکے رکوایا گیا تھا، تاہم بعد ازاں پی ٹی آئی کی جانب سے لانگ مارچ کے اعلان پر لیگی قیادت نے اسی شام کہا کہ اب ہم بھرپور مقابلہ کریں گے۔

اس کے علاوہ اس انٹرویومیں عمران خان سے تلخی پرختم ہونے والی ملاقات اور حمزہ شہباز کے وزیراعلیٰ بننے پر شہباز شریف سے اظہار ناراضگی اور ان کی کلاس لینے کا بھی ذکرکرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ، ’شہباز شریف سے جتنی مرضی سخت بات کرلیں ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔کوئی جواب بھی نہیں دیتے‘۔ شہباز شریف کمزوروزیر اعظم ہیں ، ان سے حکومت نہیں چل رہی نہ وزراء ان کی بات سنتے ہیں،وزراء ان کو گھاس بھی نہیں ڈالتے۔بڑے میاں آئیں گے تو حالات بہتر ہوں گے ۔

Read Comments