الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب میں ہونے والے انتخابات 5 ماہ کے لیے 8 اکتوبر تک ملتوی کردیے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں حکمران اتحاد ہرگزرتے دن کے ساتھ مزید مشکلات کا شکار ہورہا ہے کیونکہ مہنگائی اور دہشت گردی کے خطرات میں اضافہ ہورہا ہے،لہٰذا انتخابات میں تاخیرسے نظریاتی طور پراس کی حریف جماعت پاکستان تحریک انصاف کو فائدہ ہونا چاہیے لیکن وہ اس کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اکتوبر کی تاریخ سیاسی طور پرانتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
صدرمملکت ڈاکٹرعارف علوی 9 ستمبر2023 کو اپنے عہدے کی 5 سالہ مدت پوری کریں گے، یعنی چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطا بندیال کی ریٹائرمنٹ اور 16 ستمبر کو سپریم کورٹ سے رخصت ہونے سے صرف ایک ہفتہ قبل۔
جسٹس عمرعطا بندیال کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 17 ستمبر کوچیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔
جسٹس بندیال اورصدرعارف علوی دونوں پی ٹی آئی کے لیے امید کی کرن ہیں جس نے اکتوبر 2021 میں ملک کی طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو الگ تھلگ کردیا تھا۔
اگرچہ آئین پاکستان کے تحت صدرریاست کا سربراہ ہوتا ہے، لیکن صدر کا دفترکچھ ایسے فرائض بھی سرانجام دیتا ہے جو ملک میں سیاسی واقعات کا رخ بدل سکتے ہیں۔
مثال کے طور پرحکومت کسی بھی جج یا آئینی اداروں (جیسے نیب یا ای سی پی) کے سربراہان کو ہٹانے کے لیے اس وقت تک قانونی کارروائی کا آغازنہیں کر سکتی جب تک کہ صدر بھیجے جانے والے ریفرنس پر دستخط نہ کر دیں۔
حکومت صدر کی رضامندی کے بغیر آرڈیننس جاری نہیں کرسکتی۔ آرڈیننس حکومتوں کو معاشی یا سیکیورٹی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے قوانین اورقواعد کو فوری طورپرتبدیل کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ صدر عارف علوی نے گزشتہ ماہ حکومت کی جانب سے نئے ٹیکس عائد کرنے کےآرڈیننس پر دستخط کرنے سے انکارکر دیا تھا اور ایسا کرنے کے لئے حکومت کو پارلیمنٹ میں ایک بل پاس کرنا پڑا۔
اگر حکومت عدالت میں استغاثہ جیت جاتی ہے تو صدر کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ کسی سیاسی رہنما کو معافی دے سکتا ہے۔
مئی 2022 میں مسلم لیگ (ن) کو اس وقت اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا جب سپریم کورٹ نے آئین میں نااہلی کی شقوں کی دوبارہ تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر فیصلہ سنایا۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ عدالت کی جانب سے پیش کی جانے والی (دوبارہ) تشریح آئین کی دوبارہ تحریر کے مترادف ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے حمزہ شہباز کو اس فیصلے سے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں شکست کاسامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ نئی تشریح نے ووٹوں کی گنتی کے نتائج تبدیل کردیے تھے۔
اگرصدرمملکت نے ریفرنس سپریم کورٹ آف پاکستان کو نہ بھیجا ہوتا تو اس طرح کی تشریح ممکن نہ ہوتی۔ یقیناً عارف علوی حکومت کی منظوری کے بغیر ریفرنس پیش نہیں کرسکتے لیکن یہ سارا واقعہ ان کے عہدے کی اہمیت کو اجاگرکرتا ہے۔
جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے اپریل 2022 میں اسپیکر کے فیصلے کا استعمال کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کا ووٹ روکنے کے پی ٹی آئی کے اقدام کے خلاف فیصلہ سنایا تھا۔
عدالت کے فیصلے کے نتیجے میں عمران خان کو اعتماد کا ووٹ ہارنے کے بعد وزارت عظمیٰ سے برطرف کر دیا گیا۔
تاہم اس کے بعد سے عدالت کے کئی دیگر فیصلے پی ٹی آئی کے حق میں آئے، جن میں اس ماہ کے اوائل میں دیا گیا فیصلہ بھی شامل ہے۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں انتخابات 90 روز میں کرائے جائیں۔
پی ٹی آئی نے متعدد مواقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال پراعتماد کا اظہار کیا لیکنان کے اجانشین جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کےمعاملے میں ایسا نہیں لگتا جس اس کی ایک وجہ ہے۔
سال 2019 میں پی ٹی آئی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کیا تھا جس میں سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے ان کی برطرفی کی درخواست کی گئی تھی۔ یہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب جج اور ان کے اہل خانہ کے خلاف سوشل میڈیا پرمہم چلائی گئی۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے یہ ریفرنس خارج کر دیا تھا اوراقتدارسے ہٹائے جانے کے ایک ہفتے سے بھی کم عرصے کے بعد 14 اپریل کو عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنا ایک ’غلطی‘ تھی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ اس بات کا ان کے کام پر کوئی اثر پڑسکتا ہے، لیکن اس کے باوجود گزشتہ 11 ماہ کے دوران اہم سیاسی معاملوں کی سماعت کرنے والی سپریم کورٹ کی زیادہ تر بنچوں میں انہیں شامل نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے سیاسی مقدمات پربینچ تشکیل دینے کے معاملے میں چیف جسٹس بندیال کی جانب سے ججزکے انتخاب پرسوالات اٹھائے ہیں۔
جسٹس فائزعیسیٰ کے چیف جسٹس بننے کے بعد یہ صورتحال تبدیل ہوسکتی ہے کیونکہ سپریم کورٹ کے بینچوں کی تشکیل کا اختیارصرف چیف جسٹس کا ہے۔
عارف علوی اور جسٹس عمرعطا بندیال کے عہدوں کی مدت ختم ہونے کے بعد پی ٹی آئی کو جو بھی قانونی تحفظ حاصل ہے وہ ختم ہوجائے گا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی انتخابی تنازعات اپنے حق میں حل کیے جانے کی توقع نہیں کرسکتی۔
اس بات کا امکان ہے کہ نئے چیف جسٹس کے تحت عدلیہ محدود کردار ادا کرسکتی ہے۔
یہ توقع بھی جاتی ہے کہ نئے دور میں عدالتی اصلاحات کا آغازہوگا۔ یقین کے ساتھ تو کوئی بھی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی لیکن یقینی طور پر بہت کچھ مختلف ہوگا.