گزشتہ روز افغانستان کے شہر فیض آباد میں موجود ہندوکش پہاڑی سلسلے میں آںے والے 6.8 شدت کے زلزے نے آدھے پاکستان سمیت آس پاس کے دیگر مملاک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔
اس زلزلے کے نتیجے میں صوبہ خیبرپختونخوا میں کم سے کم 9 افراد ہلاک جبکہ 46 زخمی ہوئے ہیں۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق پنجاب، بلوچستان اور آزاد کشمیر میں کسی خاص نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
تاہم، اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون میں واقع ایک کثیرالمنزلہ رہائشی عمارت ”خداداد ہائیٹس“ میں دراڑیں پڑگئیں، جس کے بعد ا رہائشیوں نے عمارت خالی کردی۔
تباہی اور خوف کے بادل چھٹے تو سوشل میڈیا پر قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں کہ ترکیہ کی طرح اس زلزلے کی پیشگوئی بھی پہلے سے کردی گئی تھی۔
برطانوی خبررساں ادارے بی بی سی کے مطابق ترکیہ اور شام کے زلزلے کی پیشگوئی کرنے والے محقق فرینک ہوگریٹس کے ادارے نے 30 جنوری کو ایک اور ٹویٹ کی تھی جس میں بنگلہ دیش اور چین کے علاوہ پاکستان اور افغانستان کے متعدد علاقوں کی ارضیاتی سرگرمی میں اضافے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔
فرینک ہوگربیٹس نے دعویٰ کیا ہے کہ آسمان میں سیاروں کا محلِ وقوع زلزلوں کی وجہ بن سکتا ہے۔
تاہم سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ زلزلوں کی پیشگوئی کا کوئی طریقہ فی الوقت سائنس کے پاس موجود نہیں اور نہ ہی ایسا کوئی طریقہ مستقبل میں تیار ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
اس کے باوجود گزشتہ روز افغانستان، پاکستان اور بھارت میں آنے والے 6.8 شدت کے زلزلے کے وقت اینڈرائڈ فونز استعمال کرنے والے بیشتر صارفین کو زلزلے کے جھٹکوں سے چند سکینڈز قبل یا اس دوران ایک گوگل الرٹ موصول ہوا جس میں زلزلہ کی اطلاع دی گئی۔
اس الرٹ پر کئی لوگ حیران رہ گئے کہ بھلا گوگل کو زلزلہ کی پیشگی اطلاع کیسے ہوگئی؟
اس کا جواب گوگل کے کرائسز رسپانس سینٹر کی جانب سے دیا گیا کہ تمام سمارٹ فونز میں چھوٹے ایکسلرومیٹرز ہوتے ہیں جو رفتار اور تھرتھراہٹ محسوس کرسکتے ہیں اور اس بات کی نشاندہی کر سکتے ہیں کہ یہ ممکنہ زلزلہ ہو سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق جیولوجیکل سروے کا کہنا ہے کہ زلزلے کی پیشگوئی میں تین چیزوں “ وقت اور تاریخ، مقام اور شدت“ کا ہونا ضروری ہے۔
اگر کوئی پیشگوئی ان میں سے تینوں چیزیں فراہم نہیں کرتی تو اسے ایک غلط پیشگوئی تصور کیا جائے گا۔
ایسا نہیں کہ زلزلوں کی پیشگوئی کیلئے کوئی کام نہیں ہورہا۔ اس حوالے سے مختلف طریقوں پر کام جاری ہے جن میں زلزلے سے پہلے جانوروں کے رویے کا جائزہ لینا اور اس کی بنیاد پر زلزلے کی پیشگوئی شامل ہے۔