اسلام آباد کی سیشن کورٹ میں عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس میں فرد جرم کی کارروائی 30 مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے عمران خان کو ہدایت کی ہے کہ وہ آئندہ سماعت پر بھی حاضری یقینی بنائیں۔
جسٹس ظفر اقبال نے مقدمے کی سماعت کی۔
جج ظفر اقبال نے عمران خان کے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ فرد جرم کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ فرد جرم آج نہیں ہوسکتی۔
وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ بکتر بند گاڑی عدالت میں کھڑی ہونے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
عدالت نے کہا کہ آئندہ کیس کی سماعت ایف ایٹ کچہری میں ہوگی، جب بھی عمران خان کی حاضری کی بات ہوگی عدالت تبدیل ہوگی۔
جج نے دوبارہ سوال کیا کہ کیا آپ دلائل دینے کے لئے تیارہیں؟
خواجہ حارث نے کہا کہ ہم پہلے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دینا چاہتے ہیں، نہ کہ فرد جرم کی کارروائی کو آگے بڑھایا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مجھے تیاری کیلئے وقت درکار ہوگا کیونکہ آج عدالت نے طلب رکھا تھا اس لئے بنا تیاری کے آئے ہیں۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں آءندہ سماعت میں سب سے پہلے یہ دلائال دوں گا کہ یہ درخواست ہی قابل سماعت نہیں جس پر جفوجداری کارروائی کی جارہی ہے۔ جب تک دلائل نہیں دیتے فرد جرم کی کارروائی کو آگے نہ بڑھایا جائے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ آئندہ ہفتے کی تاریخ رکھ لیں، ہمارے لئے بہتر ہوگا۔
عدالت نے خواجہ حارث کی استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
جج ظفر اقبال کا کہنا ہے کہ آرڈرشیٹ آئے گی تو آئندہ کی تاریخ دوں گا۔
دوسری جانب شبلی فراز حاضری کے دستاویزات سمیت غائب ہوگئے، حاضری لینے والے افسر ایس پی سمیع اللہ دوبارہ عدالت پہنچ گئے۔
ایس پی ڈاکٹر سمیع اللہ نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں آئیڈیا نہیں شبلی فراز کہاں ہیں، دستاویزات ان کے پاس تھے۔
بابر اعوان نے ایس پی سمیع سے مکالمے میں کہا کہ آپ خیریت سے ہیں؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میری ٹانگ شدید زخمی ہے، شاید فریکچر ہوگیا ہے۔
جج ظفر اقبال نے استفسار کیا کہ باقی باتیں چھوڑیں مجھے بتائیں میری آرڈر شیٹ کہاں ہے؟
جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل گوہر خان نے کہا کہ جب شیلنگ ہوئی تو مجھ سے فائل لے لی گئی تھی۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ یہ بہت شرمناک ہے۔
اس دوران الیکشن کمیشن کے وکیل اورخواجہ حارث میں تلخ کلامی بھی ہوئی۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ایس پی کو بات کرنے دیں۔ جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ آپ مجھے براہ راست مخاطب نہ کریں۔
پولیس افسر سمیع اللہ نے کہا کہ دس منٹ دیں میں فائل ڈھونڈ کر لاتا ہوں۔
اس دوران وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ویڈیو کلپ موجود ہے، ایس پی نے مجھ سے دستخط شدہ فائل لی۔
جج نے ایس پی سمیع اللہ کو عمران خان کی حاضری فائل ڈھونڈنے کا حکم دیدیا۔
وکیل عمران خان نے دعویٰ کیا کہ فائل پولیس کے پاس ہے۔
جس پر جسٹس ظفر اقبال نے کہا کہ جس نے بھی فائل گم کی اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی، جوڈیشل آرڈر جاری کروں گا۔
پولیس افسر نے کہا کہ شیلنگ کے دوران فائل کہیں کھو گئی ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ جوڈیشل فائل غائب ہوگئی، یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔
جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ دیکھنا پڑے گا جب دستخط ہوئے ویڈیو کس نےبنائی، ابھی اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ مجھے سمجھ آرہا ہے اس کے پیچھے وہ ہے جس نے سب ترتیب دیا۔
جسٹس ظفر اقبال نے کہا کہ معلوم ہوتا ایسا ہوگا تو آرڈر شیٹ کی جگہ کوئی اور دستاویز دے دیتا، اب ایس پی واپس آئیں تو دیکھیں گے کہ آگے کیا کرنا ہے۔
عدالتی حکم کے بعد پولیس اور عدالتی عملے کی دوڑیں لگ گئی ہیں۔
فائل نہ ملی تو عدالت کی جانب سے فریقین کو بیان لکھ کر دینے کی ہدایت کی گئی۔
جج ظفر اقبال نے کہا کہ آپ دونوں اپنا بیان لکھ کر جمع کرائیں کہ کیا ہوا ہے، عدالتی دستاویز کی گمشدگی کا کوئی حل نکالتے ہیں۔
وکیل خواجہ حارث نے ایس پی سمیع اللہ کی جانب اششارہ کرتے ہوئے کہ کہ ان کا بیان ریکارڈ کریں، یہ سمجھتے ہیں ان کی نوکری بہت پکی ہے، یہ تین بار بیان بدل چکے ہیں۔
ایس پی سمیع اللہ نے کہا کہ میں جان بوجھ کر فائل کیوں گم کروں گا؟
الیکشن کمیشن کے وکیل بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہمارے پاس اس سب کی وڈیو ہے، جب سائن ہوئے تو سب نے نعرے لگائے، خان صاحب کے تمام کاغذات پر دستخط تھے۔
عدالت نے کہا کہ آئندہ سماعت پر کیس کے قابل سماعت ہونے پر دلائل ہوں گے، یہ الگ بات ہے کہ 30 مارچ کو کیا صورتحال ہوگی۔
فائل بر آمد کئیے جانے میں ناکامی پر عدالت نے عمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری منسوخ کرتے ہوئے عمران خان کے خلاف فرد جرم کی کارروائی 30 مارچ تک مؤخر کردی اور عدالت نے عمران خان کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
زیر بحث عدالتی دستاویز واحد قانونی ثبوت ہے کہ عمران خان عدالت میں پیش ہوئے۔ دستاویز کو تلاش کرنے اور عدالت میں جمع کرانے میں ناکامی کے وسیع اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
دستاویز کی عدم موجودگی عمران خان کی عدالت میں پیشی کے بارے میں قانونی رکاوٹ پیدا کرے گی۔ اگر وہ ہفتہ کو پیش نہ ہو پاتے تو ان کے وارنٹ گرفتاری فعال ہو چکے ہوتے۔
مزید اہم بات یہ ہے کہ ان کے خلاف ہونے والی کیس کی مزید کارروائی روک دی جائے گی۔ یہ اس لیے اہم ہے کہ عدالت توشہ خانہ کیس میں پی ٹی آئی سربراہ پر فرد جرم عائد کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔