سپریم کورٹ میں سینئر صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف کے اہل خانہ کے وکیل نے ازخودنوٹس پراعتراض اٹھادیا۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5رکنی لارجر بینچ نے ارشد شریف قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
وزات داخلہ، خارجہ اور اطلاعات کے حکام ، جے آئی ٹی ، ایف آئی اے اور آئی بی حکام اور شہید ارشد شریف کے اہلخانہ عدالت میں پیش ہوئے۔
مزید پڑھیں: ارشد شریف قتل کیس: سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی رپورٹ مسترد کردی
ارشد شریف کے اہل خانہ کے وکیل شوکت عزیزصدیقی نے ازخودنوٹس پراعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ عدالت تفتیش کو سپروائزر نہیں کرسکتی، سپریم کورٹ کا تحقیقات کی نگرانی کرنا خلاف آئین ہے، ارشد شریف کی والدہ کو جسٹس آف پیس سےرجوع کرنےکاکہناچاہیئے تھا۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ساڑھے 5 ہفتے انتظارکے بعد سوموٹو لیا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ اتنا عرصہ کوئی قانونی کارروئی کیوں نہیں کی؟۔ جس پر شوکت عزیز صدیقی نے جواب دیا کہ ایس ایچ اوتھانہ رمنا شہید کی والدہ کی درخواست پرمقدمہ درج نہیں کررہا تھا۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے ارشد شریف قتل پر ازخود نوٹس کیس سماعت کیلئے مقرر کردیا
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ صحافی برادری کےخدشات اورتحفظ کے لئے ازخود نوٹس لیا گیا تھا، عدالت سوموٹو میں کسی کو سزا دینے نہیں بیٹھی، جے آئی ٹی کےکام میں سپریم کورٹ کوئی مداخلت نہیں کررہی، عدالت صرف حکومتی اداروں کوسہولیات فراہم کررہی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تحقیقات کی نگرانی نہیں بلکہ تحقیقات میں تعاون دے رہے ہیں، ہمارا مقصد کسی کوکیس شامل کرنا یا تحفظ دینا نہیں، ارشد شریف ایک صحافی اورایک پاکستانی شہری تھا، قتل کے اس واقعہ پرہم بھی دکھی ہوئے۔
عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ عدالت نےسوموٹوفیکٹ فائنڈنگ رپورٹ آنے کے بعد لیا، فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کچھ پہلو تھے جن کی تحقیقات ضروری تھیں، عدالتی کارروائی شروع ہونے پر ہی مقدمہ درج ہوا، جے آئی ٹی کوحکومت فنڈزفراہم نہیں کررہی تھی، سپریم کورٹ نےجے آئی ٹی کوفنڈزدلوائے اوروہ بیرون ملک گئی۔
جسٹس مظاہرنقوی نے کہا کہ تفتیش کی نگرانی کرنا عدالت کااختیارہے، آپ کہتے ہیں توازخودنوٹس ختم کردیتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ شہید کی والدہ کولگتا ہے کہ ہم 5ججزان کی مدد نہیں کرسکتے؟ سیدھا سیدھا کہ دیں کہ سپریم کورٹ کوئی کارروئی ہی نہ کرے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ارشد شریف قتل کیس میں ابھی تک کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی، بیرون ملک سے کوئی تعاون نہیں مل رہا،عدالت کا کسی کوتحفظ اورنہ کسی کومجرم قراردینا مقصد ہے، کوئی دلچسپی نہیں لےگا توکارروئی مزید تاخیرکا شکارہوگی، عدالت نے سوموٹوکارروئی سے کوئی فائدہ نہیں اٹھانا، صحافیوں کا عدالت بہت احترام کرتی ہے، صحافی ہمیں کچھ بھی کہیں کبھی توہین عدالت کی کارروئی نہیں کی، صحافی کوقتل کردیا گیا جودوسروں کے لئے سبق ہوسکتا ہے، ارشد شریف صحافی اوراس ملک کا شہری تھا، صحافیوں کے بنیادی حقوق کےتحفظ کے لئے عدالت نے سو موٹو لیا۔
ارشد شریف کے اہل خانہ کے وکیل شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ارشد شریف کی والدہ روزجیتی اورمرتی ہیں ، ارشد شریف کی والدہ کی مرضی کا مقدمہ درج نہیں ہو رہا، چاہتے ہیں جے آئی ٹی کواپنا کام کرنے دیا جائے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی کے کام میں عدالت نے کوئی مداخلت نہیں کی۔
عدالت عظمیٰ نے ارشد شریف کے اہل خانہ کونشست پر بیٹھنے کی ہدایت کردی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سوال یہ ہےکہ کیا آپ درست دروازے پردستک دے رہے ہیں؟ ہمارے مطالعے کےمطابق پہلے دونوں ممالک کےدرمیان ایک معاہدہ ہوگا پھروہ تعاون کریں گے، کیا آپ نے باہمی قانونی معاونت کا معاہدہ کیا؟۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی ہم نے انہیں معاہدے کے لئے لکھ دیا ہے۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ارشد شریف کی والدہ نے درخواست کی تھی ، وزیراعظم نے بھی جوڈیشل کمیشن بنانے کے لئے خط لکھا تھا لیکن ان معاملات میں بہت سی چیزیں خفیہ ہوتی ہیں،اگر ہم نے مانیٹرنہ کریں توپیشرفت سست رہے گی، ہم نے جوڈیشل کمیشن نہیں بنایا نہ ہی جے آئی ٹی کےکام میں مداخلت کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ شوکت صدیقی نے درست کہا کہ ہم نے تفتیش نہیں کرسکتے لیکن اگرہم نے جوڈیشل کمیشن بنا دیا توپھرسب کوطلب بھی کرسکیں گے، اس وقت غلط خبروں،الزامات اورپراپیگنڈہ کی بھرمارہے، آپ حیران ہوجاتے ہیں کہ جو ارشد شریف کو سپورٹ اور تحفظ دے رہے تھے ان پربھی الزامات ہیں ، کچھ اور لوگوں پر بھی الزامات ہیں، ہم شفافیت چاہتے ہیں، اس وقت انتشار اور تقسیم کی کیفیت ہے، شفافیت ہی امن رکھ سکتی ہے، اس واقعے نے صحافیوں میں دہشت پھیلا رکھی ہے، ہمیں بھی بطور شہری تشویش ہے،ہمیں ہرجگہ رسائی نہیں ہے جبکہ جےآئی ٹی کو رسائی ہے، ہم چاہتے ہیں شفاف اور جلد تحقیق ہو اوریہ تب تک نہیں ہوسکتا جب تک رکاوٹیں ختم نہ ہوں، ہم سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کردیں؟ ۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نے باہمی قانونی معاونت کے لئے کینیا کولکھا ہے، اس میں 10دن لگ جائیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم 3 ہفتے کے لئے ملتوی کردیتے ہیں ، اس دوران باہمی قانونی تعاون کا معاہدہ ہوجائے توہمیں مطلع کریں۔
شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ہماری استدعا ہے ارشد شریف کیس میں گناہ گاروں کوسزا ملے اوربےگناہ لپیٹ میں نہ آئے۔ جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ اپنی آواز نیچے رکھ کر بات کریں۔
وکیل شوکت عزیزصدیقی نے کہا کہ عدالت کے پاس کسی تحقیقات کی نگرانی کا کوئی قانونی اختیار نہیں ہے۔
جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی نے کہا کہ کس قانون میں لکھا ہےکہ سپریم کورٹ بیرون ملک قتل صحافی کاازخود نوٹس نہیں لےسکتی؟ آئین 1973سےابتک رکا نہیں رہا، بدل رہا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ اب تک متحدہ عرب امارات اورکینیا سے کوئی تعاون نہیں ملا۔
جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ باہمی قانونی تعاون کے قانون کے تحت کینیا تحقیقات میں معاونت کیوں نہیں کر رہا؟ کینیا سے باہمی قانونی تعاون حاصل کرنے کا طریقہ کار اور میعاد کیا ہے؟ ۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے ارشد شریف قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت 3ہفتے کے لئے ملتوی کر دی۔