Aaj Logo

شائع 16 مارچ 2023 06:57pm

ڈیجیٹل ڈپلومسی اور پاکستان

دنیا بھر میں ڈیجیٹل ڈپلومیسی کو ایک مؤثر حکمت عملی کے طور استعمال کیا جاتا ہے، جب کہ پاکستان میں ٹوئٹر پر کبھی کرسٹن ٹرنر جو پاکستان میں برطانیہ کے ہائی کشمنر تعینات رہ چکے، جو مارگلہ کے پراڑوں پر مہم جوؤں کی جانب سے پھیلایا جانے والا کوڑا کرکٹ اکٹھا کرتے اور ٹویٹ کرتے جس میں صفائی نصف ایمان والے ملک کے کوڑا پھینکنے والے باشندوں کو آڑے ہاتھوں لیتے، مگر یہ صورتحال دیگر پکنک کی جگہوں پر بھی دگرگوں ہی نظر آتی ہے، اس طرح ہماری ڈیجیٹل ڈپلومیسی تو شاید بنیادی اخلاقیات سے عاری قوم کے طور پر ہی ہو رہی تھی۔

دوسری جانب اگر پاکستان میں ٹرک آرٹ کی بات جائے تو اسے دنیا بھر میں سراہا بھی جاتا ہے اور پاکستان میں جرمنی کے سابق سفیر مارٹن کوبلر نے متعدد بار اپنی ٹوئٹس میں ٹرک آرٹ کی تعریف کرکے متعدد پاکستانیوں کے دل جیتے ہیں۔ ٹویٹر پر ان کو سراہنے والوں کو تانتا بندھ گیا تھا۔

اس سے قبل، فروری 2019 میں، مارٹن نے اپنی سائیکل کو ٹرک آرٹ کے نمونوں میں راولپنڈی کے ایک مقامی آرٹسٹ کے ذریعے پینٹ کروایا تھا ۔ مارٹن کوبلر، جنہوں نے گزشتہ دو سالوں میں نہ صرف اپنے دوستانہ اشاروں سے پاکستانیوں کے دل جیت لیے ہیں بلکہ دل کو گرما دینے والی ٹویٹس سے بھی پاکستان اور اس کے لوگوں سے محبت کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

کوبلر اگست 2017 میں بطور جرمن سفیر پاکستان آئے تھے اور مارچ 2019 کے شروع میں ریٹائرڈ ہوگئے تھے۔ ڈیجیٹل سفارت کاری کی اس مثال کو بھی ہم لے سکتے ہیں کہ جس طرح کوبلر نے ٹرک آرٹ کو سراہا، اسی طرح پاکستانی بھی سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے ٹرک آرٹ کو دنیا میں پرنچا سکتے ہیں۔

ہم اگر بات کریں پاکستانی سیاست دانوں کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی تو اپوزیشن کے کھلاڑی حکومت کے ظلم ستم کی آہ وبقاء کرتے پائے جاتے ہیں۔ حالیہ زمان پارک میں پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کی گرفتاری کے دوران جو پولیس نے آپریشن کیا وہ سوشل میڈیا کی زینت بنا اور پھر اس پر پاکستان تحریک انصاف نے بین الاقوامی میڈیا کی توجہ بھی حاصل کی اور پاکستان میں آزادی اجتماع کی خلاف ورزیوں کو زیر بحث لایا گیا۔

اب اگر سیاسی بحث و مباحثے کا جائزہ لیا جائے تو دنیا بھر میں پاکستان کے حالات کی عکاسی سوشل میڈیا کے زریعے ہو رہی ہے، کیونکہ آئے دن ہم دیکھتے ہیں کبھی سیاسی گالم گلوچ تو کبھی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی، ہمیں سوشل میڈیا پر یہی مواد زیادہ تر گردش کرتا نظر آتا ہے مگر جب ہم پاکستان کے آرٹ و کلچر کی ڈیجیٹل ڈپلومیسی کی بات کریں تو پھر کوبلر اور ٹرنر ہی لائق تحسین ہیں اور ڈیجیٹل ڈپلومیسی بارے ہمارے ہاں آگاہی اور مواد نہ ہونے کے برابر دکھائی دیتی ہے۔

اگر مالی جائزے کی بات کریں اور ڈیجیٹل ڈپلومیسی کے زریعے تجاتی اہداف بڑھانے کی حکمت عملی اپنائی جائے تو وزارت خزانہ کے سرکاری اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ مالی سال (2021-22) میں، پاکستان نے نہ صرف اپنا برآمدی ہدف حاصل کیا بلکہ 30 بلین ڈالر کی نفسیاتی رکاوٹ کو بھی عبور کر لیا، کیونکہ ایک سال پہلے کی آمدنی 25.16 بلین ڈالر سے 26.6 فیصد بڑھ کر 31.85 بلین ڈالر ہو گئی۔

تاہم، درآمدی بل بھی 43 فیصد اضافے کے ساتھ 2021-22 میں 80 بلین ڈالر سے تجاوز کر گیا، جو ایک سال قبل 56.12 بلین ڈالر تھا۔ جب کہ حقیقی معنوں میں اگر تجزیہ کیا جائے تو دیگر ممالک سے منگوائی جانے والی مصنوعات کی بدولت درآمدات پر زیادہ خرچ ہوتا ہے اور بیرون ممالک کو بھیجی جانی والی مصنوعات سے ہم خطیر زرمبادلہ کمانے کے قابل ہوتے ہیں۔

جب کہ دوسری جانب پاکستان اگر صرف معیاری آم کو ہی ڈیجیٹل سفارت کاری کے زریعے دنیا بھر میں متعارف کرادے تو خاطر خواہ زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اس وقت پاکستان میں مہنگائی کی شرح مبینہ طور پر چالیس فی صد سے بھی زائد ہے اور ملک کی تاریخ میں یہ حد شاید پرلی دفعہ ہی عبور ہوئی ہے۔

اب اگر حکومت وقت ڈیجیٹل سفارت کاری کے بارے میں ایک جامع حکمت عملی ترتیب دے۔ پاکستان کے ادارے خصوصاً اپنی مصنوعات کی سفارت کاری کو یقینی بنائیں اور ہمارے ہاں جو انواع و اقسام کی معیاری مصنوعات تیار کی جاتی ہیں، ہم ڈیجیٹل سفارت کاری کے زریعے دنیا بھر میں متعارف کروا سکتے ہیں۔مگر ہم تو شاید ابھی تک مسئلہ کشمیر اور پاکستان اور ہندوستان کے مابین پانیوں کے مسئلے ہی اجاگر نہیں کر پائے ہیں تو دنیا ڈیجیٹل سفارت کاری پر کاربند ہوتے ہوتے ہم شاید مزید نصف صدی تک اس بات کا ادراک کر پائیں گے کہ ہمیں اپنی تجارت بڑھانے کا بیانیہ ڈیجیٹل سفارت کاری کے زریعے بنانا تھا نہ کہ ٹکر کے لوگ ، رائے ونڈ کی ر ۔۔۔ جیسے ٹرینڈز سوشل میڈیا پر متعارف کروانے میں مصروف عمل رہیں۔

قارئین کی سمجھ بوجھ کے لئے اگر بات کی جائے کہ ڈیجیٹل ڈپلومیسی ہے کیا تو ڈیجیٹل ڈپلومیسی کو ای ڈپلومیسی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، یعنی سفارتی مقاصد کے حصول میں مدد کے لیے انٹرنیٹ اور نئی انفارمیشن کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز کے استعمال کو ڈیجیٹل سفارت کاری کے طور پر دنیا میں پر جانا جاتا ہے۔

یہ ڈپلومیسی انٹرنیٹ اور ڈپلومیسی کے درمیان باہمی تعامل پر مرکوز ہے، جس میں انٹرنیٹ سے چلنے والے ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں سے لے کر جس میں سفارت کاری کی جاتی ہے، سفارتی ایجنڈوں جیسے سائبر سیکیوریٹی، پرائیویسی اور بہت کچھ پر نئے موضوعات کے ظہور تک، انٹرنیٹ ٹولز کے استعمال کے ساتھ سفارت کاری کی مشق کرنے کو دنیا بھر میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ مگر پاکستان میں ڈیجیٹل ڈپلومیسی کے بارے اتنی آگاہی نہیں ہے جتنا دنیا اس سے مستفید ہورہی ہے۔

اس ڈپلومیسی کے زمرے میں فیس بک ڈپلومیسی، ٹویٹر ڈپلومیسی، اور گوگل ڈپلومیسی وغیرہ شامل ہیں۔ اگر اس کی ابتدا کی بات کی جائے تو اس سفارت کاری کے لیے وقف شدہ باقاعدہ یونٹ قائم کرنے والی پرلی وزارت خارجہ امریکی محکمہ خارجہ تھی، جس نے 2002 میں ای ڈپلومیسی پر ٹاسک فورس بنائی۔ اس ٹاسک فورس کا نام تبدیل کر کے آفس آف ای ڈپلومیسی رکھ دیا گیا ہے اور اس میں تقریباً 80 عملے کے ارکان ہیں، جن میں سے تقریباً نصف شعبہ تعلیم کے لیے وقف ہیں۔

دوسری وزارت خارجہ نے بھی اس سفارت کاری کو اپنانا شروع کر دیا ہے۔ یوکے فارن اینڈ کامن ویلتھ آفس میں ڈیجیٹل ڈپلومیسی کا ایک دفتر ہے جو سفارت کاری کی مختلف سرگرمیوں میں مصروف عمل رہتا ہے۔ سویڈن ڈیجیٹل ڈپلومیسی کے فروغ میں بھی سرگرم رہا ہے، خاص طور پر اپنے وزیر خارجہ کارل بلڈٹ کی آن لائن کمیونیکیشن حکمت عملی کے ذریعے جو جلد ہی ’بیسٹ کنیکٹڈ ٹویٹر لیڈر‘ بن گئے۔

جولائی 2012 میں، عالمی تعلقات عامہ اور مواصلاتی فرم برسن مارسٹیلر نے سربراہان مملکت اور حکومت کے ذریعے ٹوئٹر کے استعمال کا مطالعہ کیا، جسے ٹوئٹر ڈپلومیسی کہا جاتا ہے۔ Twiplomacy پر کی گئی تحقیق سے معلوم ہوا کہ دنیا بھر کے 125 ممالک میں سربراہان مملکت و حکومت اور ان کے اداروں کے 264 ٹوئٹر اکاؤنٹس ہیں اور صرف 30 لیڈروں کی ذاتی طور پر ٹویٹر ہینڈل ہیں۔ تب سے، عوامی سفارت کاری کے ایک آلے کے طور پر ڈیجیٹل ڈپلومیسی پر توجہ نہ صرف بڑھی ہے۔

2013 میں، یو ایس سی سنٹر آن پبلک ڈپلومیسی نے ’فیس بک کو کوسوو کو ایک ملک کے طور پر تسلیم کرنا‘ کا نام دیا ہے، جو 2013 کے لیے عوامی سفارت کاری کے اہم لمحات میں سے ایک ہے۔

جولائی 2020 میں شائع ہونے والے ٹویپلومیسی اسٹڈی 2020 کے مطابق، اقوام متحدہ کے 98 فیصد رکن ممالک کی ٹویٹر پر سفارتی موجودگی تھی۔ صرف لاؤس، شمالی کوریا، ساؤ ٹوم، پرنسپے اور ترکمانستان کی سوشل نیٹ ورک پر نمائندگی کی کمی بتائی گئی ہے۔

ڈپلومیسی میں ایک ٹول کے طور پر سوشل میڈیا کے عروج نے ریاستوں کو روایتی پبلک ڈپلومیسی کی یک طرفہ نوعیت کے مقابلے میں دوسرے سفارتی اداکاروں اور ان کے غیر ملکی عوام کے ساتھ دو طرفہ یا ”مکالمہ“ مواصلت کا راستہ فراہم کیا ہے۔ جبکہ روایتی سفارت کاری رشتہ دارانہ رازداری میں آف لائن ہوتا ہے، آن لائن سفارت کاری نے بہت سارے اداکاروں کو خارجہ پالیسی سازی پر تبادلہ خیال کرنے کی اجازت دی ہے، جس سے خارجہ پالیسی کے ایجنڈے پر رائے عامہ کا اثر بڑھتا ہے۔

سفارت کاری کا یہ طریقہ دوسرے اداکاروں کو کثیر الجہتی سفارتی مہمات پر بااثر لوگوں اور تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے اضافی مواقع فراہم کرتا ہے۔ اس کی ایک مثال 2012-2014 کی مہم ہے جو تنازعات میں جنسی تشدد کے خاتمے کے لیے اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے شروع کی تھی، جس نے اقوام متحدہ کی تنظیموں کے ساتھ ساتھ ریاستوں کو شامل کرنے کے لیے ایک ملٹی چینل ڈیجیٹل اور آف لائن طریقہ استعمال کیا۔ ایک ویڈیو جس میں اقوام متحدہ کی خصوصی ایلچی انجلینا جولی کی طرف سے مشترکہ تخلیق کردہ مواد کو پیش کیا گیا ہے، جو اس مہم کی حمایت کرتی ہے، سیکرٹری خارجہ کی اسی طرح کی ویڈیو کے مقابلے میں، 15,000 آراءکو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہی، جس نے صرف 400 آراء حاصل کیں۔

ریاستوں کے لیے اپنی خارجہ پالیسی کے بارے میں اپنے سامعین کے تاثرات کو سننے کی یہ صلاحیت کو ڈیجیٹل ڈپلومیسی کا ایک اور ممکنہ فائدہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ ان ریاستوں کے لیے ایک نیا ذریعہ فراہم کر سکتا ہے جنہوں نے ایک دوسرے کی خارجہ پالیسی کے عہدوں کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کے لیے رسمی سفارتی تعلقات منقطع کر لیے ہیں۔

مثال کے طور پر، ریاستوں کے کشیدہ سفارتی تعلقات کے باوجود، امریکی محکمہ خارجہ ٹویٹر پر ایرانی صدر کو فالو کرتا ہے۔

ایک سفارتی چینل کے طور پر سوشل میڈیا تک رسائی نے دیگر سفارتی اداکاروں کے درمیان بہت کم سخت طاقت یا مادی وسائل کی طاقت کے ذریعے حاصل کی جانے والی طاقت کے بارے میں سوچی جانے والی ریاستوں کے سفارتی اداکاروں کے رشتہ دار اثر کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔ 2020 میں ایلان منور اور ایلاد سیگیو کے ذریعہ کیے گئے ایک مطالعے میں وزارت خارجہ اور نیویارک میں اقوام متحدہ کے مشنز کی سوشل میڈیا کی نقل و حرکت کی پیمائش کی گئی، جس سے معلوم ہوا کہ کم سخت طاقت والی ریاستیں آن لائن سفارتی نیٹ ورکس میں ”سپر نوڈس“ بننے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کر سکتی ہیں۔ اسے ”نیٹ ورک ڈپلومیسی کا نظریہ“ بھی کہا جاتا ہے۔

اگرچہ ریاستیں ٹوئٹر اور دیگر آن لائن چینلز کے استعمال کے ذریعے آن لائن سفارتی اہمیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں، لیکن یہ نئے سفارتی چینلز خطرے کے بغیر نہیں آتے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بالخصوص ٹوئٹر پر شیئر کیے گئے پیغامات اور تصاویر نے پرلے ہی سفارتی بحران کو جنم دیا ہے۔

2018 میں، گلوبل افیئرز کینیڈا نے ایک بیان ٹویٹ کیا جس میں سعودی عرب سے انسانی حقوق کے قیدیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس کے جواب میں سعودی عرب نے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کرتے ہوئے ملک کے سفیر کو نان گراٹا قرار دیا اور کینیڈا میں سعودی عرب کے سفیر کو واپس بلا لیا۔

یہ واقعہ اس وقت بڑھ گیا جب حکومت کے حامی ٹویٹر اکاو ¿نٹ نے بعد میں ٹورنٹو کے سی این ٹاور کی سمت اڑنے والے ایئر کینیڈا کے طیارے کی تصویر ٹویٹ کی، جس میں متن لکھا تھا، “وہ جو اس چیز میں مداخلت کرتا ہے جس سے اسے کوئی سروکار نہیں وہ اسے وہ چیز پاتا ہے جو اسے خوش نہیں کرتی۔ “ تصویر اور امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے درمیان سمجھے جانے والے مماثلت کی وجہ سے اس تصویر نے سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے ریاستوں کے بین الاقوامی اور ملکی استحکام کو نقصان پرنچانے کے لیے استعمال ہونے والی غلط معلومات کے پھیلاؤ کو بھی قابل بنایا ہے، جیسے کہ 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں روسی حکومت کی مداخلت وغیرہ کا بیانیہ سامنے آیا تھا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈیجیٹل سفارت کاری کو پاکستان مؤثر آلہ کے طور پر استعمال کرے اور غلط معلومات کے سیلاب میں کس طرح تربیت و تحقیق کے زریعے سوشم میڈیا کو تجارتی اور دیگر مقاصد کے لئے بروکار لائے اس پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

Read Comments