Aaj Logo

اپ ڈیٹ 16 مارچ 2023 05:58pm

توشہ خانہ کیس میں عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے توشہ خانہ کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے وارنٹ معطلی کی درخواست خارج کردی۔

ایڈیشنل سیشنز جج ظفراقبال نے عمران خان کی وارنٹ معطلی کی درخواست پر فیصلہ سنا دیا ہے۔ عدالت نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی وارنٹ معطلی کی درخواست خارج کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ وارنٹ گرفتاری محظ ایک انڈرٹیکنگ کی بنیاد پر خارج نہیں کیے جا سکتے۔

سیشن کورٹ نے درخواست پر تفصیلی فیصلہ بھی جاری کردیا ہے، 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہجج ظفر اقبال نے جاری کیا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسلام آبا دہائیکورٹ نے قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار دیا، درخواست گزار اپنے حقوق کھو چکا ہے، درخواست گزار کو اب اس عدالت کے سامنے سیرنڈر کرنا لازمی ہے۔

فیصلے میں تحریری ہے کہ عدالت کبھی بھی یہ صورتحال نہیں سرہاتی اور اسے جان بوجھ کر قانون کی خلاف ورزی کرنا سمجھتی ہے، قانون کمزور اور طاقتور سب کے لیے برابر ہے۔

تحریری فیصلے کے مطابق آئی جی اسلام آباد نے عدالت کو زخمی پولیس افسران کی فہرست فراہم کی ہے، اور پولیس کو پیش آنے والی مزاحمت کی تصاویر بھی فراہم کیں، درخواست گزار کے روئیے کی روشنی میں وارنٹ گرفتاری محظ انڈر ٹیکنگ کی بنیاد پر خارج نہیں کئیے جاسکتے۔

تحریری فیصلہ میں لکھا ہے کہ عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ درخواست قانون اور حقائق کے منافی ہے، لہذاٰ عدالت عمران خان کی وارنٹ معطلی کی درخواست کو مسترد کرتی ہے۔

درخواست پر سماعت

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کے وارنٹ گرفتاری سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔

عمران خان کے وکلاء خواجہ حارث، فیصل چوہدری اور بابراعوان عدالت میں پیش ہوئے۔ وکیل خواجہ حارث نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا وارنٹ برقرار رکھنے کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

ہم چاہتے ہیں کہ عمران خان عدالت آجائیں، وہ کیوں نہیں آرہے؟ جج

جج ظفر اقبال نے سوال کیا کہ آپ کو کیا لگتا ہے کیس قابل سماعت سے متعلق الیکشن کمیشن کو نوٹس دینا چاہیئے؟ مسلہ ایک سیکنڈ میں حل ہوسکتا ہے، عمران خان کہاں ہیں؟ عمران خان ذاتی حیثیت میں عدالت کہاں پیش ہوئے ہیں؟ انڈرٹیکنگ کا کا نسیپٹ کہاں پر ہے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ سیشن عدالت کو موصول نہیں ہوا۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کیا ضروری ہے عمران خان کو گرفتار کرکے ہی عدالت لائیں؟۔

جج نے ریمارکس دیے کہ ہم چاہتے ہیں کہ عمران خان عدالت آجائیں، وہ کیوں نہیں آرہے؟ وجہ کیا ہے؟ قانون کے مطابق عمران خان نے پولیس کو اسسٹ کرنا ہے ریزسٹ نہیں کرنا، عمران خان نے ریزسٹ کرکے سین کو بنایا، اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ غیرقانونی عمل سے آرڈر اثر انداز نہیں ہونا چاہیئے۔

جج ظفر اقبال نے مزید ریمارکس دیے کہ اگر قابل ضمانت وارنٹ ہوتے تو مسئلہ ہی کچھ نہ ہوتا، عمران خان کے وارنٹ ناقابلِ ضمانت ہیں، آپ جو دلائل بتا رہے وہ قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کے مطابق ہیں، کیس میں شوریٹی تو آئی ہوئی ہے۔

عمران خان کے وکلاء کی وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کی استدعا

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کیا یہی سختی رکھنی ہے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری رکھنے ہیں۔ جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ وارنٹ گرفتاری عمران خان کی ذاتی حیثیت میں پیشی کے لئے ہیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ عمران خان تو خود کہہ رہے ہیں کہ میں عدالت آنا چاہتا ہوں، وہ استثنیٰ نہیں مانگ رہے، عدالت آنا چاہتے ہیں، کیا اس وقت ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری کے فیصلے کی ضرورت ہے؟ آپ کے پاس 2 آپشنز موجود ہیں، درخواست گزار آنا چاہتے ہیں، پہلا آپشن انڈرٹیکنگ کی درخواست منظور کرکے ناقابلِ ضمانت وارنٹ منسوخ کردیں، دوسرا آپشن شوریٹی لے کر قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کریں، عمران خان انڈر ٹیکنگ دینا چاہتے ہیں کہ 18مارچ کو سیشن عدالت پیش ہوں گے۔

عمران خان کے وکلاء نے وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کی استدعا کردی۔

جج ظفر اقبال نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کو نوٹس بھی دیتے ہیں، جس پر وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ آپ نوٹس دے کرالیکشن کمیشن کوآج ہی بلا لیں۔

دنیا کا سب سے مہنگا وارنٹ عمران خان کا بن گیا ہے، جج کے ریمارکس

جج نے سوال کیا کہ لاہور زمان پارک میں صورتحال خراب کیوں ہے؟ پاکستان کا ہی نہیں دنیا کا سب سے مہنگا وارنٹ عمران خان کا بن گیا ہے، حکومت کے کروڑوں روپے اس وارنٹ پر لگ گئے کیا ایسا ہونا چاہیئے تھا۔

جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ اس میں حکومت کا قصور ہے، میں ذاتی حیثیت میں مذمت کررہا ہوں ایسا نہیں ہونا چاہیئے تھا۔

جج ظفر اقبال نے کہا کہ قانون کے مطابق ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری کسی بھی شہر میں قابلِ اطلاق ہوسکتا ہے، قانون کے مطابق عمران خان کو سیدھا عدالت لانا تھا، عمران خان کو عدالتی پیشی پر حراساں کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔

جج ظفر اقبال نے کہا کہ غریب ملک ہے، کروڑوں روپے وارنٹ پر خرچہ ہوا جس کی ضرورت نہیں تھی، عمران خان اب بھی سرینڈر کردیں تو میں آئی جی کو آرڈر کردیتا ہوں گرفتار نہ کریں۔

قانون کے مطابق وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے، مزاحمت کیوں ہوئی؟ عدالت

عدالت کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے، مزاحمت کیوں ہوئی؟ عوام کے پیسے ہیں، زیادہ سے زیادہ پر امن احتجاج کرلیتے، فوجداری کارروائی میں عموماً ملزمان ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوتے ہیں، ملزمان عدالت کے سامنے پیش ہوتے ہیں اور وارنٹ ختم ہوجاتے ہیں، ایسا نہیں کہ وارنٹ کی تاریخ 18 مارچ ہے اور پولیس ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے۔

وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ انڈرٹیکنگ کے بعد وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی ضرورت نہیں۔

جج کا کہنا تھا کہ بارش ہے، سیکرٹریٹ پولیس کو الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرنےکا کہہ دیتا ہوں۔

ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نےعدالتی عملے کو ہدایت دی کہ 12 بجے تک الیکشن کمیشن کو کہیں کہ عدالت پہنچیں۔

بعدازاں عدالت نے 12 بجے تک سماعت میں وقفہ کردیا۔

وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز

وفقے کے بعد سماعت توشہ خانہ کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عمران خان کے وکیل خواجہ حارث اور بیرسٹر گوہر روسٹرم پر آگئے جبکہ اسلام آباد پولیس کے لاء آفیسر بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے ڈھائی بجے تک ملتوی کرنے کی استدعا کی۔

معاون وکیل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن پشاورہائیکورٹ ہیں، سعد حسن کے مطابق وہ 2:30 بجے تک پہنچ جائیں گے۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے استدعا کی کہ عدالت انڈر ٹیکنگ لے کر وارنٹ گرفتاری معطل کرے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے آرڈر میں یہی لکھا ہے انڈرٹیکنگ کی تصدیق کرا کر فیصلہ کریں۔

آپ کی گرفتاری کی حد تک ہم آپ کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں، جج ظفر اقبال

جج نے ریمارکس دیے کہ بات بالکل سادہ تھی، پیچیدہ ہوگئی ہے، آپ کی گرفتاری کی حد تک ہم آپ کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں، آپ کی سیکیورٹی اور دیگرمعاملات ہمارے لیے بھی اہم ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ لاہور میں جو کچھ ہوا اس پر مجھے افسوس ہے، آپ کے پاس وارنٹ معطل کرنے کا بھی اختیار ہے، ہائیکورٹ نے کہا ہے وارنٹ کے اجراء کے بعد کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کریں۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ہماری درخواست مسترد نہیں کی، ہائیکورٹ نے ہمیں ٹرائل کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کی، ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کو انڈر ٹیکنگ کی تصدیق اور ضمانت لینے کا کہا، گزارش ہے انڈرٹیکنگ لے کر وارنٹ معطل کیے جائیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کا بھی یہی حکم ہے۔

لاہور میں جو کچھ ہوا اس پر مجھے افسوس ہے، وکیل عمران خان

جج ظفراقبال نے کہا کہ چلیں دیکھ لیتے ہیں، شکایت کنندہ کے دلائل بھی سن لیتے ہیں، مجھے یہ رکاوٹ عجیب لگی ہے، رکاوٹ نہ ہوتی توبھی کوئی مسئلہ نہیں تھا، سیاسی ورکرز کو بتانا چاہیئے کہ قانون کے ساتھ تعاون کرنا ہوتا ہے، مزاحمت نہیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ اپنے آرڈر کو ہائیکورٹ کے آرڈر کی روشنی میں دیکھ لیں، اس کے بعد آپ جو چاہے فیصلہ کرلیں، یہ مسئلہ توہے لیکن اس کوحل بھی کیا جاسکتا ہے، استدعا ہے کہ موجودہ حالات کے تناظرمیں اس معاملے کو دیکھ لیں، جتنی غلطیاں ہوئیں ان کا فورم اور ہے، ان کی جگہ موجود ہے۔

بعدازاں عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل کے پہنچنے تک کیس کی سماعت میں 2:30 بجے تک وقفہ کردیا۔

وقفے کے بعد ایک بار پھر سماعت کا آغاز

عمران خان کی وارنٹ معطلی کی درخواست پر وقفے کے بعد دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تو الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن اور آئی جی اسلام آباد عدالت میں پیش ہوئے۔

ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے ریمارکس دیے کہ آئی جی صاحب! جواب دیں اب تک وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوا؟، جس پر آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ میرا نام ڈاکٹر اکبر ناصر خان ہے۔

آپ کیا کہتے ہیں استثنیٰ دینا چاہیئے یا نہیں؟ جج کا استفسار

عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کیا کہتے ہیں استثنیٰ دینا چاہیئے یا نہیں؟ جس پر آئی جی اسلام آباد نے جواب دیا کہ ہمارے آفیسرز کو ملزم سے ملنے نہیں دیا گیا، کارکنان کی جانب سے طاقت کے استعمال سے پولیس کو روکا ہوا ہے، ہمارے سینئر آفیسرز وہاں پر موجود ہیں، ہماری پولیس فورس کا سامنا پتھروں، پیٹرول بم، ڈنڈوں سے کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ میں ان 65 اہلکاروں کی جانب سے بھی حاضر ہوا ہوں جو زخمی اسپتالوں میں ہیں، ہمیں اس سے پہلے کبھی اس کا سامنا نہیں کرنا پڑا ماسوائے جہاں دہشت گردی تھی، ہمارے اہلکاروں کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا۔

آئی جی اسلام آباد نے زخمی افسران و اہلکاروں کی فہرست پیش کردی

آئی جی اسلام آباد نے زخمی افسران اور اہلکاروں کی فہرست اور زمان پارک واقعے کی تصاویر عدالت میں پیش کردیں۔

آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ رائے ہے کہ اگر ایک شخص کو رعایت دینا چاہتے ہیں تو باقی 22 کروڑ کو بھی دیں، جو قانون میرے لئے ہے وہی سب کے لئے ہے، آئین پاکستان کا آرٹیکل 25 کہتا ہے قانون سب کے لئے برابر ہے۔

آئی جی اسلام آباد کے بیان پر تحریک انصاف کے وکلاء نے شور شرابا کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی سیاسی گفتگو کر رہے ہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ املاک کو کتنا نقصان پہنچا؟ جس پر آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ پولیس کی 10 گاڑیاں اور واٹر کینن جلائی گئی ہے، نقصان کا تخمینہ لاہور میں لگایا جا رہا ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزم کی جانب سے یہ تیسری درخواست ہے، ہر دفعہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس عدالت کے حکم کو قانونی قرار دیا، ملزم کی جانب سے پہلے بھی پیشی کی انڈرٹیکنگ دی جاچکی ہیں، ملزم نے کسی کا پاس نہیں کیا، کئی بار تو میں نے بھی کہا کہ ان کو رعایت دے دیں، عمران خان نے لاہور میں ریلی نکالی، سیکیورٹی کا بہانہ ناقابل قبول ہے۔

ایک ایم پی اے بھی دوہزار بندہ سڑکوں پر نکال سکتا ہے، وکیل الیکشن کمیشن

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے عدالت کو کوئی ہدایات جاری نہیں کیں، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ملزم کو ٹرائل کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کی، فرق اتنا ہے کہ آج انڈرٹیکنگ پر ملزم کے دستخط ہیں، سوال یہ ہے کہ پولیس وہاں کیا کرنے گئی؟ پولیس عدالت کے احکامات پر عملدرآمد کرانے کے لئے گئی، پہلی بارپولیس گئی تو کہا گیا عمران خان موجود نہیں،دوسری بارڈی آئی جی جاتے ہیں تو پتھراؤ کیا جاتا ہے۔

سعد حسن نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ ایک ایم پی اے بھی دوہزار بندہ سڑکوں پر نکال سکتا ہے اور لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا کرسکتا ہے، مجھے اعتراض نہیں اگر عمران خان 18 کو پیش ہوجائیں لیکن غیر معمولی ریلیف مانگا جا رہا ہے، ملزم کی پیشی کے بغیر وارنٹ منسوخ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن نے عمران خان کی درخواست خارج کرنے کی استدعا کردی۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آج جو انڈرٹیکنگ آئی ہے اس کوسابقہ انڈر ٹیکنگ کے ساتھ رکھ کر دیکھا جائے، میں نے بہت کوشش کی کہ اس انڈرٹیکنگ میں کچھ مختلف ڈھونڈ سکوں، کچھ حرف کی غلطیوں کے علاوہ کچھ بھی مختلف نہیں ہے، عدالتوں میں ٹاؤٹ بھی بیٹھے ہوتے ہیں وہ بھی انڈرٹیکنگ دے دیتے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن کے ٹاؤٹ کہنے پر پی ٹی آئی وکلاء سیخ پا ہوگئے اور کہا کہ آپ ٹاؤٹ ہوں گے۔

جس پر وکیل الیکشن کمیشن نےجواب دیا کہ میں نے کسی کے بارے میں نہیں کہا، کسی وکیل کا نام نہیں لیا۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ اس عدالت میں پہلے کوئی انڈرٹیکنگ نہیں دی گئی،یہ اس عدالت میں پہلی انڈرٹیکنگ ہے جو ملزم نے خود لکھ کردی ہے، پولیس کے ساتھ جو زیادتی ہوئی اس کا یہ فورم نہیں ہے، پولیس کے ساتھ زیادتی کا تدارک درج مقدمات میں ہونا ہے ۔

جج ظفر اقبال نے ریماکس دیے کہ کافی تفصیل سے باتیں ہوئیں، اب آرڈر بھی تفصیل سے ہی آئے گا، میں آرڈر لکھوا کر اس پردستخط کرکے یہاں سے جاؤں گا، آپ دونوں فریقین ایک ایک بندہ بھیج دیجئے گا، یہاں کھڑے ہونے کا یا بیٹھنے کا فائدہ نہیں۔

عدالت نے عمران خان کے وارنٹ معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ شام 5 بجے قریب ایڈیشنل سیشنز جج ظفراقبال نے عمران خان کی وارنٹ معطلی کی درخواست پر فیصلہ سنایا۔

عدالت نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی وارنٹ معطلی کی درخواست خارج کردی اور ریمارکس دیئے کہ وارنٹ گرفتاری محظ ایک انڈرٹیکنگ کی بنیاد پر خارج نہیں کیے جا سکتے۔

خیال رہے کہ توشہ خانہ کیس میں ایڈیشنل سیشن جج ظفراقبال نے ہی عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں، عدالت نے انہیں 18 مارچ کو پیش کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔

عمران خان کی جانب سے گزشتہ روز وارنٹ کی منسوخی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا جہاں عدالت نے عمران خان کے وارنٹ گرفتاری برقرار رکھتے ہوئے درخواست نمٹا دی تھی اور حکم دیا تھا کہ عمران خان 18 مارچ کو پیشی سے متعلق ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی انڈرٹیکنگ ٹرائل کورٹ میں جمع کرائیں۔

Read Comments