پاکستان نے گزشتہ پانچ سالوں میں بڑے پیمانے پر ہتھیار خریدے ہیں، اور ہتھیاروں کی درآمد کے معاملے میں آٹھویں نمبر پر آگیا ہے۔
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری) نے ہتھیاروں کی خریدو فروخت کے حوالے سے گزشتہ پانچ سال پر مبنی رپورٹ جاری کی ہے، جس کے مطابق پاکستان دنیا میں ہتھیاروں کا آٹھواں سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے، جبکہ 2013 سے 2022 کے دوران پاکستان کی ہتھیاروں کی درآمدات میں 14 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
2013 سے 17 کے دوران پاکستان کا ہتھیاروں کی عالمی درآمدات میں حصہ صرف تین فیصد تھا، جو 2018 سے 22 کے دوران بڑھ کر 3.7 فیصد ہوگیا۔
2018 سے 2022 کے دوران چین کا ہتھیاروں کی تجارت میں حصہ 5.2 فیصد رہا، اور گزشتہ 10 سالوں کے دوران اس کے ہتھیاروں کی برآمدات میں 23 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔چین نے اپنے 80 فیصد ہتھیار ایشیا اور اوشینیا کی ریاستوں کو بیچے۔
گزشتہ پانچ سالوں کے دوران چین نے 46 ریاستوں کو ہتھیار برآمد کیے، لیکن ان میں سے آدھے سے بھی زیادہ یعنی 54 فیصد صرف پاکستان کو دیے گئے۔
پاکستان نے اپنے درآمد کئے گئے ہتھیاروں کا 77 فیصد صرف چین سے حاصل کیا۔
ہمارے ہتھیاروں کا دوسرا سب سے بڑا سپلائر سویڈن ہے جس کا پاکستان کی ہتھیاروں کی کل درآمدات میں حصہ 5.1 فیصد ہے۔
پاکستان نے تیسرے نمبر پر روس سے ہتھیار درآمد کیے جو اس کی کل درآمدات کا 3.6 فیصد تھے۔
دوسری جانب بھارت نے دنیا بھر ممیں سب سے زیادہ ہتھیاروں کا ذخیرہ درآمد کیا۔
سنہ 1993 سے بھارت مسلسل دنیا کا سب سے بڑا ہتھیاروں کا امپورٹر ہے۔
اگرچہ اس کی ہتھیاروں کی خریداری میں کمی آئی ہے لیکن اس کے باوجود یہ پہلے نمبر پر ہے اور عالمی ہتھیاروں کی خریداری میں اس کا حصہ 11 فیصد ہے۔
مذکورہ کمی ایک پیچیدہ خریداری کے عمل، ہتھیاروں کے سپلائرز کو متنوع بنانے کی کوششوں اور درآمدات کو مقامی ڈیزائنوں سے بدلنے کی کوششوں سے منسلک تھی۔
سپری کے تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ سعودی عرب، قطر اور مصر گزشتہ پانچ سالوں سے دنیا میں ہتھیاروں کے سب سے بڑے 10 درآمد کنندگان میں شامل ہیں۔
اس فہرست میں بھارت پہلے جب کہ پاکستان آٹھویں نمبر پر ہے۔
سپری کی طرف سے 13 مارچ کو شائع ہونے والے عالمی ہتھیاروں کی منتقلی کے نئے اعداد و شمار کے مطابق عالمی ہتھیاروں کی برآمدات میں امریکہ کا حصہ 33 سے بڑھ کر 40 فیصد ہوا، جبکہ روس کا حصہ 22 سے کم ہو کر 16 فیصد ہو گیا۔
سعودی عرب کی 2018 سے 2022 کے دوران دنیا بھر میں ہتھیاروں کے دوسرے سب سے بڑے درآمد کنندہ کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہے۔
ریاست نے اس عرصے کے دوران تمام اسلحہ کی درآمدات کا 9.6 فیصد حاصل کیا۔
سنہ 2022 کے دوران سعودی ہتھیاروں کی خریداری میں طیارے، فضائی دفاعی نظام، بکتر بند گاڑیاں، میزائل، بحری ہتھیار، سینسرز اور بحری جہاز شامل تھے۔
سعودی عرب کا سب سے بڑا سپلائر امریکہ ہے جو کل ہتھیاروں کا 78 فیصد فراہم کرتا ہے۔
ریاست نے فرانس سے 6.4 جب کہ سپین سے 4.9 فیصد ہتھیار درآمد کیے۔
سعودی عرب کو امریکہ کی طرف سے فراہم کیے گئے ہتھیاروں میں سینکڑوں زمین پر حملہ کرنے والے میزائلوں اور 20 ہزار سے زیادہ گائیڈڈ بموں کے ساتھ 91 جنگی طیاروں کی فراہمی شامل ہے۔
سنہ 2013 سے 2017 کے مقابلے میں گزشتہ پانچ سالوں کے دوران سعودی عرب کی ہتھیاروں کی درآمدات میں 8.7 فیصد کی کمی آئی ہے۔
قطر پچھلے پانچ سالوں میں ہتھیاروں کا تیسرا سب سے بڑا درآمد کنندہ رہا، اس کی ہتھیاروں کی درآمدات میں 311 فیصد اضافہ ہوا اور یہ اس سے پہلے کے پانچ سالوں کی چھٹی پوزیشن سے تیسری پر آگیا۔
مصر گزشتہ پانچ سالوں میں اسلحہ درآمد کرنے والے چھٹا سب سے بڑا ملک رہا، یہ اس سے پہلے کے پانچ سالوں میں تیسرے نمبر پر تھا، تاہم اس کی ہتھیاروں کی درآمدات میں 5.3 فیصد کی کمی واقع ہوئی تھی۔
گزشتہ سال کے دوران مصر نے طیارے، میزائل، بحری ہتھیار، سینسرز اور بحری جہاز خریدے۔
مشرق وسطیٰ میں ہتھیاروں کے سب سے بڑے 10 درآمد کنندگان میں سعودی عرب، قطر، مصر، متحدہ عرب امارات، کویت، الجزائر، مراکش، اردن، بحرین اور عراق شامل ہیں۔
پچھلے پانچ سالوں میں ہتھیاروں کے سب سے بڑے درآمد کنندگان کی عالمی درجہ بندی میں بالترتیب بھارت، سعودی عرب، قطر، آسٹریلیا، چین، مصر، جنوبی کوریا، پاکستان، جاپان اور امریکہ شامل ہیں۔
ہتھیاروں کے 10 سب سے بڑے برآمد کنندگان کی فہرست میں بالترتیب امریکہ، روس، فرانس، چین، جرمنی، اٹلی، برطانیہ، سپین، جنوبی کوریا اور اسرائیل ہیں۔
سپری کے مطابق یورپی ریاستوں کی جانب سے بڑے ہتھیاروں کی درآمدات میں 2013 سے 17 اور 2018 سے 22 کے درمیان 47 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ عالمی سطح پر اسلحے کی بین الاقوامی منتقلی میں 5.1 فیصد کمی واقع ہوئی۔
اسلحے کی درآمدات میں مجموعی طور پر افریقہ (40 فیصد)، امیریکاز (21 فیصد)، ایشیا اور اوشینیا (7.5 فیصد) اور مشرق وسطیٰ (8.8 فیصد) میں کمی آئی۔