پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے جاں بحق کارکن علی بلال عرف ظل شاہ کے والد لیاقت علی کا ان پر کسی سیاسی یا قانونی دباؤ کے حوالے سے کہنا ہے کہ ایسا کوئی تھریٹ اور دباؤ نہیں ہے، جب میرے بیٹے کی موت کا مجھے پتا چلا اس وقت میں بہت صدمے میں تھا، میں حواسوں میں نہیں تھا۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے علی بلال کے والد لیاقت علی نے کہا کہ پانچ دس منٹ بعد پی ٹی آئی کے کچھ لوگ آئے اور کہا کہ آپ کو یاسمین راشد صاحبہ نے بلایا ہے، میرے بچے کی لاش اس وقت سروسز اسپتال میں تھی، تو بجائے مجھے سروسز اسپتال لے جانے کے وہ مجھے عمران خان کے پاس لے گئے، جہاں ڈھائی گھنٹے کے بعد ان سے ملاقات ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ یاسمین راشد سے میری بات ہی نہیں ہوئی، وہ مجھے سیدھا عمران خان کے پاس لے گئے، ’انہوں نے مجھے کہا یہی تھا کہ اسپتال جارہے ہیں سروسز، کیونکہ میرے بیٹے کی لاش وہاں پر پڑی ہوئی ہے‘۔
لیاقت علی کے مطابق عمران خان سے جب بات ہوئی تو وہاں افواہ یہی تھی کہ پولیس تشدد ہے، اس وقت میں اس حالت میں نہیں تھا کہ اپنے طور پر تفتیش کرتا۔ انہوں نے مجھے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ ہماری میڈیا اور لیگل ٹیم آپ کے ساتھ ہوگی، آپ کا انصاف ملے گا۔
ظل شاہ کے والد نے بتایا کہ وہ مجھ سے میرے فون پر ہی بات کرتا تھا، چار بجکر کر پینتیس یا چھتیس منٹ پر کال آئی تو میں اس وقت فون کے پاس نہیں تھا، میرے بیٹے علی عثمان نے کال اٹھائی تو اس (علی بلال) نے بتایا کہ میں گرفتار ہوگیا ہوں، امی ابو کو نہ بتانا، میں آجاؤں گا۔
والد لیاقت نے بتایا کہ ’بیٹے نے جب مجھے بتایا تو میں نے کہا 144 ہے ، جماعتوں کے کارکن ہوتے ہیں گرفتار چھوڑ دیں گے، آجائے گا۔ لیکن سات بجکر پندرہ یا بیس منٹ پر اسی نمبر سے کال آئی، انہوں نے کہا کہ انکل آپ کیلئے ایک شاکنگ نیوز ہے، میں نے پوچھا کیا بیٹا ، اس نے کہا ظلِ شاہ شہید ہوچکا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ میں نے سوچا سوشل میڈیا کا کوئی شوشہ نہ ہو، لیکن دیکھا تو گھر کے باہر بہت سے لوگ تھے جو موبائل فون پر اس تصویر دکھا رہے تھے، ایک بندہ شناختی کارڈ دکھا رہا تھا جو میڈیا پر ریلیز ہوا تھا، میں نے کہا یہ میرا بیٹا ہی ہے۔ اس کی شناخت کی تو اسی دوران پی ٹی آئی کے کچھ بندے آئے اور گاڑی میں بٹھا کر لے گئے اور مجھے کہا کہ آپ کے بیٹے کی لاش سروسز میں پڑی ہوئی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے لوگوں کو پہلے ہی پتا چل گیا تھا کہ وہ فوت ہوچکا ہے، کیونکہ سروسز اسپتال سے حماد اظہر نے ٹوئٹ کیا تھا، اس وقت تو ایکسیڈنٹ کی دور دور تک کوئی خبر نہیں تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان سے ملاقات کے بعد میں پی ٹی آئی کے لوگوں کے ساتھ تھانہ ریس کورس چلا گیا، لیگل ٹیم نے نے درخواست لکھی، اس میں انہوں نے وزیراعلیٰ، آئی جی ، ڈی آئی جی اور رانا ثناء اللہ کو نامزد کردیا ، تو میں پھر تھوڑا ہوش میں آیا اور ریلیکس ہوا تو میں نے کہا یہ تو کام غلط ہوگیا، نہ تو میں اس وقت موقع پر موجود تھا نہ انہوں نے قتل کیا، یہ تو پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ ہوجائے گا، ’پھر میں نے میڈیا پر آکر کہہ دیا کہ انہوں نے جو نام دئے ہیں میں ان پر اسٹینڈ نہیں کرتا‘۔
لیاقت علی نے مزید بتایا کہ کل ایس ایس پی کشور صاحب آئے تھے ، انہوں نے لیپ ٹاپ پر مجھے ساری چیزیں دکھائیں ، وہ بھی نامکمل ہیں، جب تک انویسٹی گیشن مکمل نہیں ہوتی میں کیسے کہہ سکتا ہوں، ہمارے ہاتھ میں تو اس کا ایک پیپر بھی نہیں ہے، ہماری ایف آئی آر کو تو انہوں نے انٹرٹین کیا ہی نہیں تھا، آٹھ دس گھنٹے وہاں بیٹھے رہے پھر آخر پوسٹ مارٹم کیلئے تیاریاں کرلیں۔
علی بلال کے والد نے کہا کہ میرا کسی جماعت، کسی سرکاری افسر، کسی پولیس سے کوئی شکوہ نہیں ہے، میرا ایمان ہے پنجاب پولیس انویسٹی گیشن ٹھیک کرے گی تو ملزمان نکال لیں گے۔
پروگرام کے دوسرے حصے میں سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے گفتگو کی اور ملکی معیشت اور مسائل پر بات کی۔
علی بلال کی وفات پر انہوں نے کہا کہ سیاست اس نہج پر آگئی ہے کہ بس یہ اقتدار کی جنگ ہوگئی ہے، سچائی اور حقیقت کے کوئی معنی نہیں رہے ہیں، سیاسی بیانیہ حقائق کو عبور کرگیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں چھیاسی فیصد بچوں کو وہ خوراک نہیں مل رہی جو ملنی چاہئیے، پاکستان میں آدھے بچے اسکول میں نہیں ہیں، 45 فیصد پاکستانی بچے میٹرک میں گئے ہیں جبکہ انڈیا میں 85 فیصد بچے گئے ہیں، ہزار میں سے 40 بچے کم سنی میں مر جاتے ہیں جو سوڈان کے بعد دوسری بدترین صورتحال ہے۔
ایک نئے سیٹ کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ہم ایسا کوئی حل نہیں سوچ رہے جس میں عوامی رائے نہ لی جائے، پاکستان میں جو بھی فیصلہ ہو جمہوری ہونا چاہئیے، ہم کوئی غیر جمہوری بات نہیں کر رہے ۔ آئین میں تبدیلیوں کی بالکل گنجائش ہے، لیکن آئین و جمہوریت کے اندر رہ کر کام کرنا چاہئیے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صدارتی نظام، مارشل لاء اور پارلیمانی نظام بھی آچکا ہے اور ہم ہر طریقے سے فیل ہوچکے ہیں، بنگلہ دیش ہندوستان ہم سے آگے نکل گیا، ہماری گورننس خراب ترین ہے، ہم ابھی بھی نہیں جاگیں گے تو کیا حال ہوگا پاکستان کا، کیا یہی ہمارا نصیب ہے؟
انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم ایک اچھی ترمیم تھی جس نے وفاق سے طاقت لے کر چاروں صوبوں کو دیدی، لیکن مقصد نامکمل رہا کیونکہ صوبوں نے وہ اختیارات نیچے نہیں دئے، مشرف واحد سربراہ تھے جنہوں نے لوکل باڈیز الیکشن کروائے، منتخب حکومتیں تو نہیں کرواتیں تھیں، وہ چاہتی ہی نہیں کہ لوکل باڈیز الیکشن ہوں۔
این ایف سی ایوارڈ پر بات کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ وفاق دیوالیہ پن کے قریب پہنچ گیا ہے ، اگر آپ این ایف سی پر نظر ثانی نہیں کریں گے، اس کو کم نہیں کریں گے تو وفاق آہستہ آہستہ بینکرپٹ ہوجائے گا۔ جو پیسہ بچتا ہے وہ سود دینے کے برابر بھی نہیں ہے۔
آئی ایم ایف سے معاہدے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ دیر سے ہی سہی لیکن ہم نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کردیں ، لیکن اس کے نتیجے میں ہمارے ذخائر بہت کم ہوگئے، جس کی وجہ سے آئی ایم کی شرائط تھوڑی سخت ہوگئی ہیں، آئی ایم آف کہہ رہا ہے کہ دوست ممالک نے جو پیسے دینے کے وعدے کئے تھے وہ پیسے لیں، اب جب تک دوست ممالک آئی ایم ایف کو یقین نہیں دلا دیتے تب تک یہ مسئلہ تھوڑا پھنس گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ نہ کچھ کرکے آپ کو آئی ایم ایف سے ڈیل کرنی پڑے گی ورنہ بحران میں مزید دھنسیں گے۔
انتخابات کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اکتوبر والے عام انتخابات ہو وقت پر ہوجائیں گے، صوبائی انتخابات پر غیریقینی کی صورتحال ہے۔
ن لیگ کا حصہ ہونے یا نہ ہونے کے سوال پر مفتاح اسماعیل نے کہا کہ میں الیکٹورل پالیٹکس یعنی الیکشن لڑنے والی سیاست سے ہٹ گیا ہوں۔
ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ کے امکان پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر پاسیبلٹی ہوتی ہے، لیکن ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کے باوجود جس کے پاس پولیٹیکل کیپیٹل نہ ہو مسائل حل نہیں ہوسکیں گے، چہرے بدلنے سے فرق نہیں پڑتے گا، نظام میں تبدیلیاں لانی ہوں گی۔