سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ترقی کے لیے صنفی شمولیت (تمام جنس کی شمولیت) کی اشد ضرورت ہے۔
کراچی کی حبیب یونیورسٹی میں ”ری امیجننگ پاکستان“ سیمینار میں خطاب کے دوران مفتاح نے کہا کہ، ”اگر ہم اپنی پچاس فیصد آبادی، اپنی بہنوں کو نظر انداز کریں گے اور انہیں ترقی کا حصہ نہیں بننے دیں گے تو ہم کبھی ترقی نہیں کر سکیں گے۔“
مذکورہ بالا نکتہ ان 10 ستونوں میں سے ایک تھا جن پر سابق وزیر خزانہ کے مطابق پاکستان ترقی کیلئے دوبارہ کھڑا ہوسکتا ہے۔
سیمینار میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی، سابق وزیراعظم نواز شریف کے معاون خصوصی فواد حسن فواد، پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق رہنما مصطفیٰ نواز کھوکھر اور دیگر ماہرین اقتصادیات نے شرکت کی۔
اسماعیل، عباسی، کھوکھر اور بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی سیاسی شخصیات کے اس گروپ کا حصہ ہیں جو ملک کو درپیش موجودہ چیلنجز پر ملک گیر سیمینارز کا ایک سلسلہ منعقد کر رہے ہیں۔
ان تقریبات کا مقصد مستقبل کے لائحہ عمل پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہے، جو پاکستان کو جاری بحران سے نکالنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے ضروری ہے۔
مفتاح اسماعیل کی طرف سے تجویز کردہ پہلا ستون ”ایک قوم“ تھا۔
انہوں نے ترقی کے لیے ایک اتحاد بنانے کی ضرورت پر زور دیا جس میں اشرافیہ نچلے طبقے کا ساتھ دے کر معیشت میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔
انہوں نے لوگوں کو ترقی کے مواقع فراہم کرنے کے لیے لائحہ عمل پر زور دیا۔
سابق وزیر خزانہ نے آبادی کو کنٹرول کرنے پر بھی زور دیا، اور اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کہ کیا ملک ہر سال پیدا ہونے والے 55 لاکھ بچوں کو صحت، تعلیم اور خوراک کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لیے تیار ہے؟
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کا وقت آگیا ہے، بڑھتی ہوئی آبادی ملک کی ترقی کو متاثر کر رہی ہے۔
اس کے بعد انہوں نے تعلیم پر زور دیا، جو مفتاح کے مطابق دنیا کی برابری کرنے کے لیے ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں تعلیم پر توجہ دینی ہوگی۔
مفتاح کا خیال ہے کہ بچوں کی تعلیم پر خرچ ہونے والی رقم یعنی 30,000 سے 50,000 روپے خاندانوں کو دی جانی چاہیے کیونکہ ملک بچوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہے۔
مزید یہ کہ خواتین کو ترقی کے شعبوں میں شامل کرنا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ صنف پر مشتمل ترقی کا ہونا ضروری ہے۔ اسحاق ڈار کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے گزشتہ سال وزیر خزانہ کے عہدے سے سبکدوش ہونے والے مفتاح نے کہا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی بھوک مٹانے کے لیے ملک میں بہتر زرعی طریقہ کار ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ شعبہ ملکی برآمدات کے لیے اہم ہے۔
سابق وزیر خزانہ کے مطابق برآمدات میں اضافہ، امن و امان کی صورتحال میں بہتری، صنعتی تحفظ کے اصول، توانائی، کرنسی کی قدر کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ”ٹیکس ٹو جی ڈی پی“ شرح 15 فیصد نہیں ہے اور جی ڈی پی پر ایکسپورٹ 15 فیصد نہیں ہے تو آپ آئی ایم ایف کے پاس جاتے رہیں گے۔
ان کا کہنا تاھ کہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں اپنا دخل کم کرنا چاہیے، اس سے اسے پختہ ہونے میں مدد ملے گی۔