سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب ترامیم کیس سماعت کیلئے مقرر کرلیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ 14 مارچ کو سماعت کرے گا۔
سپریم کورٹ نے اس حوالے سے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کردیئے۔
نیب ترامیم کیس میں وفاقی حکومت کی جانب سے وکیل مخدوم علی خان دلائل جاری رکھیں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے نیب قانون میں ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کررکھا ہے۔
نیب ترمیم کیس کی 14 فروری 2023 کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس اور وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مخدوم صاحب یاددہانی کے لئے کہہ رہا ہوں کہ آپ کے دلائل میں 11 سماعتیں گزر گئیں، جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ دوسری جانب کے دلائل میں 6 ماہ لگے تھے اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دوسری طرف کا ریکارڈ مت توڑیے گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی سے استعفے کب دیے تھے؟ جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ تحریک انصاف کے ایم این ایز نے 11 اپریل کو استعفے دیے تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی کے استعفے قسطوں میں منظور کیے گئے، استعفوں کی تصدیق کے حوالے سے عدالتی فیصلے موجود ہیں۔
اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ استعفے منظور ہوچکے تو منظوری کے خلاف پی ٹی آئی عدالت چلی گئی، لاہور ہائیکورٹ نے 44 استعفوں کی منظوری پر حکم امتناع دیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے استعفوں کی منظوری کا اسپیکر کا حکم معطل نہیں کیا، ہائیکورٹ کے مطابق اسپیکر کا فیصلہ درخواست کے ساتھ لگایا ہی نہیں گیا تھا۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ تحریک انصاف کے 20 ارکان نے استعفے نہیں دیے تھے وہ اسمبلی کا حصہ ہیں، امریکی تاریخ دان نے کہا تھا کہ سیاسی سوال کبھی قانونی سوال نہیں بن سکتا، امریکا تاریخ دان کی بات پاکستان کے حوالے سے درست نہیں لگتی، امریکی سپریم کورٹ بھی کہہ چکی کہ عدالت سیاسی سوالات میں نہیں پڑے گی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پاکستان میں بنیادی حقوق اور آئینی سوالات پر فیصلے ہوتے رہے، سیاسی سوال قانونی تب بنتا ہے جب سیاسی ادارے کمزور ہوجائیں۔
اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی نے خود ہی آرڈیننس لاکر نیب ترامیم ڈیزائن کی تھیں، اپنی ہی ڈیزائن کردہ ترامیم چیلنج کرنا بدنیتی ہے، سپریم کورٹ وطن پارٹی اور طاہرالقادری کیس نیت اچھی نہ ہونے پر خارج کر چکی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ خود تعین کرتی ہے کہ اس نے اپنا دائرہ اختیاراستعمال کرنا ہے یا نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تفصیل دیں آئینی خلاف ورزیوں پر نیب قانون کی شقوں کو سپریم کورٹ نے کب کب کالعدم قرار دیا؟ ۔