اٹلی میں ڈوبنے والی کشتی کے بدقسمت مسافروں میں 17 سالہ افغان لڑکی مائدہ حسینی بھی شامل تھی جس نے خلابازبننے کا خواب ترک کرنے لے بجائے دشوار گزار راستے کاانتخاب کیاتھا۔
یہ خواہش پہنچ سے دورتھی لیکن بلند حوصلے والی مائدہ نے امریکہ خلائی ادارے ناسا کو بھی خط لکھا تھا۔ اگست 2021 میں طالبان نے ملک کا اقتدار سنبھالا تو مائدہ کا خاندان افغانستان سے ایران چلا گیا۔
یورپ پہنچ کرتعلیم جاری رکھنا مائدہ کا خواب تھا جس نے زمین کے راستے ترکی اورپھر وہاں سے بذریعہ سمندر یورپ پہنچنے کا خطرہ مول لیا اور اس فیصلے پرفکرمند والدہ کو بھی راضی کرلیا۔
مائدہ 22 فروری کو ترکی سے اٹلی جانے کے لیے لکڑی سے بنی کشتی میں سفرکرنے والے 200 افراد میں سے ایک تھی، سفر کے چوتھے روز یہ کشتی اٹلی کے ساحل کروٹون کے قریب سمندر کی لہروں کی نظرہوکر ٹوٹ گئی تھی۔ حادثے میں کم از کم 70 افراد جان سے گئے لیکن مائدہ کی لاش ابھی تک نہیں مل سکی۔
بی بی سی میں شائع رپورٹ کے مطابق والدہ نے اس سے کہا تھا ، ’جاؤ میری بیٹی خدا تمھارا محافظ ہو‘-
مائدہ نے جو آخری وائس پیغام تھا اپنی والدہ مہتاب افروزکوبھیجا تھا اس پیغام کے پس منظرمیں کشتی کے انجن اور سمندری لہروں کی آواز سنی جا سکتی ہے۔ اس کا کہنا تھا، ’ہیلو امی، امید ہے آپ خیریت سے ہوں گی، میں بھی ٹھیک اورخوش ہوں، میں ابھی کشتی پرہوں اوراگلے 30 منٹ میں ہم اٹلی کے ساحل پر اترجائیں گے۔‘
اس وائس نوٹ کے بعد مائدہ نے ٹیکسٹ میسج میں بتایا، ’پیاری امی میں تقریباً اٹلی پہنچ چکی ہوں اورجلد ہی کشتی سے اتر جاؤں گی، میں ٹھیک اور خوش ہوں آپ پریشان مت ہوں‘۔
والدہ کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی بہت زیادہ پرعزم تھی جو اکیلے سفرکرنے سے بھی نہ گھبرائی۔
مائدہ کو 7 ماہ قبل ایران سے ترکی کی سرحد عبورکرتے ہوئے گولی ماری گئی جو ان کی ٹانگ میں 10 دن تک رہی لیکن انہوں نے سفرجاری رکھا اورہمت نہیں ہاری۔ فیملی کے مطابق مائدہ نے یورپ پہنچنے کی کئی کوششیں کی تھیں۔
والدہ کے مطابق ، ’میں اس کے بارے میں فکرمند تھی اور ایران واپس آنے کو کہا تھا، میں نے اس سے کہا کہ کیا تم بیرون ملک جانے کی باربار کوشش کر کے تھکی نہیں ہو؟-‘
اٹھارہ برس کی ہونے سے قبل یورپ پہنچنے کی خواہشمند مائدہ کو امید تھی کہ وہ والدین اور 3 چھوٹے بہن بھائیوں کو بھی وہیں بلا لے گی اور اس کا خاندان ایک بارپھراکٹھا رہے گا۔
ایران میں مائدہ کے والدین اب بھی کسی اچھی خبرکے لیے دعا کررہے ہیں کیونکہ بطور افغان پناہ گزین وہ ایران سے اٹلی کا ویزاحاصل نہیں کر سکتےکہ جا کرمائدہ کو تلاش کر سکیں۔
والدہ مہتاب کا کہنا ہے کہ میں اس کا انتظارکررہی ہوں، میں نے کسی کواس کا جنازہ کرنے کی اجازت نہیں دی نہ کسی کو تعزیت کی اجازت دی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ، ’وہ ہمیشہ کہتی تھی اپنی طرح میری بھی چھوٹی عمر میں شادی نہ کر دینا۔ میرے بڑے خواب ہیں۔ میں جانتی ہوں میرے ابو ایک عام مزدورہیں اوراتنا کچھ نہیں کرسکتے اس لیے مجھے باہرجانا اورکامیاب بننا ہے‘-
واضح رہے کہ یورپ پہنچنے کے خواہشمندوں کے لیے ترکی ایک اہم راہداری ہے۔ وہ یا تو بلقان کے راستے یورپ جاتے ہیں یا سمندر کے راستے اٹلی جیسے ممالک تک پہنچتے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کےمطابق 2022 میں 27 رکنی یورپی یونین، سوئٹزرلینڈ اور ناروے میں پناہ کی کل درخواستوں میں سے 13 فیصد افغان باشندوں کی تھیں۔
اطالوی حکام نے3 افراد کو گرفتار کیا ہے جن میں ایک ترک شہری اوردو پاکستانی ہیں اور جن کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ کشتی کے کپتان تھے۔پولیس کا اندازہ ہے کہ ہرشخص نے کشتی پرسوارہونے کے لیے فی کس 8500 ڈالرز معاوضہ دیا۔
تارکین وطن کی آمدورفت پرنظررکھنے والے مانیٹری گروپس کے مطابق 2014 سے اب تک وسطی بحیرۂ روم میں تقریباً 20 ہزارافراد ہلاک یا غائب ہوچکے ہیں۔